Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nimra Bilal
  4. Body Shaming Ke Bachon Par Asraat

Body Shaming Ke Bachon Par Asraat

باڈی شیمنگ کے بچوں پر اثرات

جب ایک معصوم بچہ اسکول سے واپس آ کر آئینے میں خود کو دیر تک دیکھے، چپ رہے، کھانے سے انکار کرے یا کسی تقریب میں جانے سے گھبرائے، تو ماں باپ اکثر کہتے ہیں "بچہ بگڑ گیا ہے"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاید وہ بچہ معاشرتی تضحیک کا شکار ہو چکا ہے۔ جسمانی ساخت، رنگت، قد یا چہرے کی بنیاد پر بچوں کا مذاق اڑانا ہمارے ہاں عام ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایسا زہر ہے جو نظر تو نہیں آتا، لیکن شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔

ہم نے مزاح کے نام پر جو معاشرتی سانچے تراشے ہیں، وہ بچوں کو قبولیت کی بجائے شرمندگی، اعتماد کی بجائے احساسِ کمتری اور خوشی کی بجائے گھٹن دے رہے ہیں۔ کوئی بچہ اگر موٹا ہے تو اسے "بھالو"، اگر پتلا ہے تو "سوکھی لکڑی"، اگر رنگ سانولا ہے تو "کالیا" اور اگر قد چھوٹا ہے تو "بونا" کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ان جملوں کے پیچھے چھپی "پیار کی چاشنی" صرف بولنے والے کو محسوس ہوتی ہے، سننے والا بچہ تو اندر ہی اندر ٹوٹ رہا ہوتا ہے۔

پاکستانی معاشرہ اس خاموش بربادی سے غافل ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ طنزیہ الفاظ، عرفی نام اور ظاہری تنقید کا نشانہ بننے والے بچے صرف ناراض یا ضدی نہیں ہوتے بلکہ ان کا دماغ ایک مستقل جنگ میں مصروف ہوتا ہے۔ باڈی شیمنگ کے شکار بچے اکثر ڈپریشن، اینگزائٹی، سوشل فوبیا اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 41 فیصد اسکول جانے والے بچے کسی نہ کسی شکل میں بُلنگ یا باڈی شیمنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے میں 66 فیصد طلبا نے اعتراف کیا کہ انہوں نے باڈی شیمنگ کا سامنا کیا، جس کے نتیجے میں 47 فیصد کو شدید جذباتی دباؤ، 40 فیصد کو جسمانی خود سے نفرت اور 10 فیصد کو خودکشی کے خیالات نے گھیر لیا۔ ان میں کئی وہ بچے تھے جنہیں بچپن میں صرف "موٹا" یا "بدصورت" کہا گیا تھا۔

نفسیاتی ماہرین کے مطابق، مسلسل جسمانی شرمندگی کا سامنا کرنے والے بچے دو خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

پہلی بیماری ہے اینوریکسیا نرووسا، جس میں بچہ خود کو موٹا سمجھ کر کھانے سے پرہیز کرنے لگتا ہے، حتیٰ کہ وہ شدید جسمانی کمزوری اور غذائی قلت کا شکار ہو جاتا ہے۔

دوسری بیماری ہے بلیمیا نرووسا، جس میں بچہ کھانے کے بعد خود کو قصوروار سمجھ کر قے کرتا ہے یا سخت ورزش کا سہارا لیتا ہے تاکہ جسم کو دوسروں کی توقعات پر پورا اتار سکے۔

یہ بیماری صرف جسم پر نہیں، روح پر وار کرتی ہے۔ یہ عمل بچے کو خود سے نفرت سکھاتا ہے۔ وہ دوسروں کے سامنے بولنے سے ڈرتا ہے، اپنا موازنہ سوشل میڈیا کے فلٹر شدہ چہروں سے کرتا ہے اور رفتہ رفتہ ایک مصنوعی زندگی جینے لگتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ باڈی شیمنگ صرف ہم عمروں تک محدود نہیں بلکہ اکثر اس کا آغاز والدین یا قریبی رشتہ داروں سے ہوتا ہے، وہی والدہ جو اپنے بچے کو "گولو مولو" کہہ کر چومتی ہیں، کبھی نہیں سوچتیں کہ یہی لفظ کل کو اس کے لیے زہر بن جائے گا۔ وہی والد جو بچوں کو وزن پر طعنے دیتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے بیٹے کی خودی کو مجروح کر رہے ہیں۔

اساتذہ، جن کا کردار رہنمائی کا ہونا چاہیے، وہ بھی اکثر مذاق میں حصہ لے لیتے ہیں۔ اسکول، جو بچے کی شخصیت سازی کا مرکز ہونا چاہیے، اکثر ایسے بچوں کے لیے اذیت گاہ بن جاتا ہے۔ وہاں بچے نہ صرف تعلیم سے دور ہوتے ہیں بلکہ اپنے وجود سے بھی بدگمان ہو جاتے ہیں۔

ہمارا دین، اسلام بھی ان رویوں کی سخت ممانعت کرتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! ایک دوسرے کو طعنہ دو نہ برے القاب سے پکارو۔ (سورۃ الحجرات: 11)

یہ آیت واضح طور پر جسمانی، نسلی یا سماجی بنیاد پر طنز اور تضحیک کو ممنوع قرار دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف ہر قسم کی تحقیر کی مذمت فرمائی بلکہ اپنے عمل سے عزت، شفقت اور قبولیت کا عملی نمونہ پیش فرمایا۔ حضرت ابوذرؓ کو جب ان کے غلام کی نسل پر طعنہ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "کسی مسلمان کو برے لقب سے پکارنا فسق (گناہ) ہے"۔ (ابو داؤد: 4962)

اسلام کا پیغام واضح ہے: انسان کا معیار اس کا رنگ، جسم یا نسل نہیں بلکہ تقویٰ، کردار اور نیت ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم باڈی شیمنگ جیسے زہریلے کلچر کے خلاف آواز اٹھائیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے وزن یا رنگ پر تنقید کی بجائے ان کے اخلاق، علم اور سچائی کو سراہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ہر بچے کی انفرادیت کا احترام کریں اور اسکولوں میں بچوں کو جسمانی تنوع کا شعور دیا جائے۔

میڈیا کو چاہیے کہ وہ ماڈلز اور اداکاروں کے ذریعے صرف "خوبصورتی" کے ایک مصنوعی معیار کو فروغ نہ دے، بلکہ مختلف رنگوں، جسامتوں اور چہروں کو مرکزی کردار دے۔ سوشل میڈیا پر باڈی پازیٹیویٹی کے پیغام کو عام کیا جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اسکولوں میں بچوں کی ذہنی صحت کے لیے کونسلنگ مراکز قائم کرے اور بچوں کو خودی، وقار اور قبولیت کا شعور دینے کے لیے خصوصی مہمات چلائے۔

ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ باڈی شیمنگ کوئی معمولی مذاق نہیں بلکہ ایک اجتماعی ظلم ہے۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو خاموشی سے نسلوں کو کھا رہا ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو کل ہمارے اپنے بچے اس زہر کا شکار ہوں گے۔

یاد رکھیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده"۔ (صحیح بخاری)

"سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں "۔

اگر ہماری زبان کسی بچے کے اعتماد، ذہنی سکون اور شخصیت کو نقصان پہنچا رہی ہے، تو ہمیں اپنی مسلمانی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔

آئیں، آج سے وعدہ کریں کہ ہم بچوں کو ان کے جسم، رنگ یا ساخت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ان کی نیت، اخلاق اور دل کی خوبصورتی کی بنیاد پر جانچیں گے۔ مذاق میں دیا گیا ایک لفظ کسی کی زندگی کا ناسور بن سکتا ہے۔

بچوں کو اعتماد دیں ان کو شرمندہ ہر گز نا کریں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan