Sunna
سننا
بدھ ازم میں ایک لفظ ہے جسے بودھی ستوا (Boddhisatva) کہتے ہیں۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ انسان جو دوسروں کو خود پر ترجیح دے، یہاں ترجیح سے مراد دوسروں کو خوش (people pleaser) کرنا نہیں ہے۔ بدھ ازم کی ہمدردی بھی بہت "سرد" (Cold Compassion) ہوتی ہے کیونکہ بدھا آپ کی انا کو تسکین پہچانے کے لیے آپ کو خوش کرنا یا گرم جوشی سے آپ کے دکھ میں شریک ہونے سے گریز کرتا ہے۔
یہاں بودھی ستوا کو میں ایک ایسے انسان کی حیثیت سے بیان کر رہی ہوں جو دوسروں کو پہلے بولنے دیتا ہے، جو اپنی بولنے والی چاہ پر قابو پا کر دوسروں کی سنتا ہے، انہیں ترجیح دیتا ہے۔
اب چونکہ مجھ میں بھی بولنے کی ہوس اور لالچ ہے، اور میرا بھی ہمیشہ یہی دل کیا کہ میں دوسروں کو اپنی سناؤں، لیکن میری جاب ایسی ہے جس میں مجھے دوسروں کو نہ صرف سننا ہے بلکہ ان کے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کرنی، ان کی کسی بات کو ذاتیات پر نہیں لینا، ان کے رویوں کو درست کرنے کے متعلق نہ ہی کچھ بولنا ہے اور نہ ہی سوچنا، کیونکہ سوچوں گی تو اس انسان کی بات کو ٹھیک سے سن نہیں پاؤں گی۔
میں نے خود کو تربیت دی دوسروں کو سننے کے لیے، مجبوری یا لاچاری میں نہیں بلکہ غیرجانبدار اور ہمدرد ہو کر سننے کے لیے۔ یہ سب آسان نہیں ہوتا، میں آج بھی پرانے رویوں پر جانے لگتی ہوں تو خود کو روک لیتی ہوں۔
لیکن کیا میں نے ایسا اس لیے کیا کیوں کہ یہ میری جاب ہے؟
اگر میں اس لیے ایسا کرتی کہ سننا میری جاب ہے مجھے یہ کرنا ہوگا، تو میں کبھی بھی خود میں سننے کی ہمت نہیں لا سکتی تھی۔
صرف وہی انسان سن سکتا ہے جس نے اپنے اندر کے درد، خوف، اکتاہٹ، کراہت، بےچینی، تکلیف کو سنا ہو، جس نے اپنے "باطن" کو بہت غور سے اور گہرائی میں سنا ہو۔ خود کے جذبات کو سننے، ان کے ساتھ بیٹھنے اور پراسس کرنے سے ہوتا یہ ہے کہ آپ میں دوسروں کی تکلیف کو سننے کی ہمت بھی آ جاتی ہے۔ آپ زبردستی "دوسروں کو سننے والی سرگرمی" کو خود پر حاوی نہیں کر سکتے۔ یہ تب ہی آتی ہے جب آپ سب سے پہلے "خود کے جذبات کو سنتے ہیں"، "خود کو سنتے ہیں"۔
سننا ایک آرٹ ہے لیکن اس آرٹ میں مہارت تب آتی ہے جب آپ کو خود کو سننا آئے۔ اکثر ہم اپنے "خود کے جذبات" کو نہ سننے کے لیے ہی زیادہ بولنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور یہ عمل عموماً خود کی حقیقت سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ ہوتا ہے (distraction)۔ اپنے اندر کے کھوکھلے پن، جذبات اور درد کا سامنا نہ کرنا پڑے، تب ہی ہمارے اندر زیادہ بولنے کی چاہ آتی ہے۔
آپ کو دوسروں کو سننے اور سمجھنے کے لیے پہلے خود کو سننا اور سمجھنا ہوگا اور یہی ایک بودھی ستوا کا مقصد ہوتا ہے۔
اور دنیا میں سب سے پرکشش اور طاقتور انسان وہ ہے جو خود آگاہ ہے اور دوسروں کو سننے اور سمجھنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتا ہے۔
(اگر آپ ایک اچھے سامع بننا چاہتے ہیں تو خود کے باطن کے ساتھ جڑنے کے بعد اپنے بچوں کی باتیں ضرور سنیں، یہ ایک ایسی پریکٹس ہے جو آپ میں صبر اور سننے کی سکت کو بڑھاتی ہے، آپ کے بچے آپ کو اپنے باطن اور بچپن کے ساتھ جوڑ کر آپ کے پرانے زخموں (childhood wounds) کو بھرنے کی سکت رکھتے ہیں، یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔
جامع ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ ایمان والوں میں سب سے اعلیٰ درجہ پر وہ ہے جسکا رویہ اپنی فیملی کے ساتھ مخلصانہ اور مہربان ہے۔ وقت نکال کر اپنے بچوں اور ہمسفر کو سنیں، اس سے ان سے زیادہ آپ کی ذات کو فائدہ ہوگا)۔