Social Media Aur Hamare Zehn Ki Naz Baradari
سوشل میڈیا اور ہمارے ذہن کی ناز برداری
آج مجھے مشہور سائیکالوجسٹ ڈاکٹر جونیتھن ہائیٹ کا ایک بہترین اور مشہور مضمون "دا کوڈلنگ آف دی امیریکن مائینڈ" (the coddling of the American mind) یاد آیا جب کسی نے مجھے کہا کہ ہمیں ایسے الفاظ یا موضوع پر بات کرنے سےگرہیز کرنا چاہیے، جس سے لوگوں کو انزائٹی ہونے لگ جائے۔ ڈاکٹر جونیتھن کو اس مضمون پر اتنی زیادہ پذیرائی ملی کہ انہیں اس کی مزید وضاحت کے لیے ایک کتاب لکھنی پڑی۔
مضمون میں ڈاکٹر جونیتھن نے بہت وضاحت سے بیان کیا ہے کہ کیسے اپنی ایموشنل صحت کا خیال رکھنے کے چکر میں امریکہ کے کالج اور یونیورسٹی کے طالبعلم کچھ مخصوص الفاظ اور موضوع کو سننا یا اس پر بحث کرنا پسند نہیں کرتے، اور کیسے عملے اور پروفیسر سے بھی اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان موضوعات سے گرہیز کریں۔ جو انکی ایموشنل صحت کے لیے درست نہیں اور انزائٹی کا باعث بن رہے ہیں۔
ڈاکٹر جونیتھن اس حقیقت سے نظریں چرانے والی چاہت کو صرف امریکہ کی ڈیموکریسی ہی نہیں، بلکہ انسانوں کی اپنی ذہنی صحت کے لیے بھی نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ میری خود کی آدھی زندگی اسی فینٹسی میں گزری ہے کہ لوگ وہ باتیں نہ بولیں، جس سے میں محرک (trigger) ہوں۔ میں نے ہمیشہ اپنی ساری انرجی لوگوں کے منہ کے آگے فلٹر لگانے میں ضائع کی ہے تاکہ مجھے انزائٹی نہ ہو۔
لیکن بہت محنت اور کوشش کے باوجود کوئی نہ کوئی ایسا انسان ضرور نکل آتا۔ جس کے الفاظ مجھے انزائٹی میں لے جاتے اور میں اس سے لڑنے پہنچ جاتی کہ اس کے لفظوں نے مجھے تکلیف دی ہے، مجھے انزائٹی ہورہی ہے اور وہ پھر یہ الفاظ استعمال نہ کرے یا فلاں ٹاپک پر بات نہ کرے۔ لیکن میں سب کا منہ پھر بھی بند کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔
یہ فینٹسی ہمارے دماغوں میں ہے کہ دنیا میں ہر چیز اور ہر معاملہ ہماری مرضی کے مطابق ہو اور ہمارے نازک اندام ذہنوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ جب کہ سائیکالوجی کہتی ہے کہ "انزائٹی کو کم کرنے کے لیے اسکا سامنا کرنا ضروری ہے نہ کہ دوسروں کے منہ کے آگے فلٹر لگانا"۔ اس بے پناہ معلومات اور "فوری رائے" (instant feedback) کے دور میں ہمیں خود میں اور اپنے بچوں میں جس چیز کو پروان چڑھانا ہے۔
اسے "لچک" (resilience) اس لچک سے مراد ابھرنے کی قوت اور خوشگوار ردِ عمل ہے، کہتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں میں اس مصیبت سے ابھرنے کی قوت کو اجاگر کرکے انہیں یہ تربیت دیتے ہیں کہ دنیا ایک ایسا باکسنگ رنگ (boxing ring) ہے۔ جہاں ہر کھلاڑی اپنے خود کے بنائے اصولوں کے ساتھ لڑنے آتا ہے اور آپ اس رنگ میں رو دھو سکتے ہیں۔ چلا سکتے ہیں، لیکن سامنے والے کھلاڑی کو اسکے اصول بدلنے پر آمادہ نہیں کرسکتے۔
روم کا بادشاہ مارکس اوریلئس اپنے جرنل "میڈیٹیشنز" کی شروعات ہی ان الفاظ سے کرتا ہے کہ آج اسکی ملاقات خودغرضی، لالچ، بےایمانی، جھوٹ، ناشکری سے ہوگی اور یہ سب ان لوگوں کی اچھے اور برے کی کم علمی یا عدم واقفیت سے ہیں۔ ایک بادشاہ تک اپنے وزراء کو کنٹرول نہیں کرسکتا تھا، اسے معلوم تھا کہ وہ کچھ بھی کر لے تب بھی کوئی نہ کوئی وزیر یا افسر کچھ نہ کچھ ایسا کرے گا۔
جس سے اسے غصہ آئے گا یا وہ طیش میں آجائے گا۔ اس لیے ایک فلسفی ہونے کے ناطے مارکس خود کو سمجھاتا اور کہتا کہ اسے خود کے ساتھ "سخت " جبکہ دوسروں کے ساتھ "برداشت" سے چلنا ہے۔ یہی سبق ہمیں اور ہمارے بچوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جو مارکس نے خود کو سکھایا، ڈاکٹر جونیتھن مضمون میں کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو بالغوں کے تحفظ سے باہر نکلنے پر یہ سکھا رہے ہیں۔
کہ انہیں، خود میں برداشت نہیں پیدا کرنا چاہیے، بلکہ دوسروں کا منہ بند کرنا چاہیے، جو کہ ناممکن ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر تو سب کو بلاک کردیں گے۔ لیکن حقیقی زندگی میں رشتوں، آفس، روزمرہ کے معاملات میں جن سے سامنا ہو انکو کیسے بلاک کریں گے؟ اپنے باس سے کیا کہیں گے کہ "سر، آپ یہ بات نہ کریں۔ مجھے اس سے انزائٹی ہوتی ہے؟
جذبات اور انزائٹی کا سامنا کرکے دوسروں کی بات کو اپنے جذبات سے الگ کرکے سننا ہمیں بہتر پبلک ڈیلنگ (public dealing) سکھاتا ہے۔ مجھے خود اس تکلیف کا سامنا رہا ہے۔ جب میں اپنی انزائٹی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹہرا کر لوگوں کے منہ پر یا تو فلٹر لگاتی یا ان سے کنارہ کشی کرتی اور انکا سامنا کرنے سے بھاگتی، لیکن یہ سب دیرپا نہیں ہوتا، آپ کو سامنا کرنا ہوتا ہے۔
اور سامنا کرکے ہی آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ سامنے والی کی بات میں نہیں، بلکہ میری کمزور انا میں ہے، یا پھر میرے نازک اندام ذہن کی فینٹسی کہ مجھے کوئی ہرٹ نہ کرے اور مجھے انزائٹی نہ ہو۔