1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nida Ishaque/
  4. Ehsas e Sharmindagi

Ehsas e Sharmindagi

احساسِ شرمندگی

ایک مرتبہ ایک صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا جو بااثر طبقے سے تعلق رکھتے تھے، ہم انسان یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم "سماجی مخلوق" ہیں اور ہماری زیادہ تر گفتگو "غیر زبانی اشاروں" (non-verbal cues) میں ہوتی ہے، ان جناب کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا لیکن حالات نے ایسی پلٹی کھائی کہ انکا اسٹیٹس بدل گیا، انہوں نے ہر ممکن کوشش کر رکھی تھی کہ وہ ہر زاویے سے ایلیٹ کلاس معلوم ہوں اور وہ ہو بھی رہے تھے لیکن محض حلیے سے۔

کچھ ہی دیر میں اندازہ ہوگیا کہ انہیں کتنی محنت کرنی پڑ رہی اپنے اس مکھوٹے کو لگائے رکھنے میں، اور جو کچھ بھی وہ کہہ رہے ہیں اور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اسے کرنے کی دراصل انہیں کوئی عادت نہیں، عادت تو شاید ہو جاتی ہے وقت کے ساتھ لیکن سب سے اہم بات انہیں کوئی "دلچسپی" نہیں تھی۔

عموماً ہم ایسے لوگوں پر ہنستے ہیں یا ان پر تنقید کرتے ہیں لیکن مجھے ان کے لیے ہمدردی محسوس ہوئی، اس لیے نہیں کہ میں اچھی عورت ہوں بلکہ اس لیے کیونکہ اوّل تو میرا تعلق نفسیات کی فیلڈ سے ہے (نفسیات پڑھنا صرف لوگوں میں بیماریاں ڈھونڈنا نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کے جذبات کو بلا امتیاز سمجھنے والا ہی اصل نفسیات دان ہے۔ ایسا ہماری سائیکو تھراپی پڑھانے والی استاد کہتی ہیں) اور مجھے معلوم تھا کہ وہ کس جذبے (emotion) کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس سب سے میں خود بھی گزر چکی ہوں، اور شاید ہم سب ہی گزرتے ہیں۔

اس مکھوٹے کے پیچھے کیا ہوتا ہے؟

اس کے پیچھے "شیم" (shame) ہوتا ہے، آج ہم انسانوں کی لت اور ان کے عجیب رویوں کے جڑ میں موجود شیطان یعنی "شیم" پر بات کریں گے۔ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے شیم۔

اکثر دیکھے ہونگے آپ نے ایسے مرد حضرات جو خواتین کو حاصل کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو، "میں کتنا "کول" (cool) اور عورتوں کو بیوقوف بنانے میں ماہر ہوں۔ میں جال بچھاتا ہوں اور لڑکیاں پھنس جاتی ہیں، ایسے لوگ معنی خیز رشتے (deep meaningful relationships) بنانے سے ڈرتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ اگر کسی نے بہت قریب سے انکا شیم یا انکے زخمی حصے (vulnerable parts) دیکھ لیے تو شاید وہی عورتیں ان سے نفرت کرنے لگیں گی، اس سے پہلے کہ وہ مجھے گہرائی میں جانیں اور مجھ سے نفرت کریں کیوں نہ میں"کول بندہ" (cool dude) بن جاؤں جو کپڑوں کی طرح خواتین دوستوں کو بدلتا ہے اور کسی کے جذبات کا احساس نہیں کرتا۔

دیکھی ہونگی آپ نے ایسی خواتین جو دوسروں کو خوش کرنے میں زندگی گزار دیتی ہیں، اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کرتیں، جو کہتی ہیں کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے انہیں لگتا ہے کہ وہ مزید شرمندہ (shameful) ہو جائیں گی اگر انہوں نے اپنی ضروریات کا اظہار کیا کیونکہ وہ اس سب کی حقدار نہیں، یا پھر وہ لڑکی جو اکثر لڑکوں اور لڑکیوں سے کہتی پھرتی ہے کہ "مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں کبھی کسی کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتی، میں بہت "کول لڑکی" (cool girl) ہوں، میں نے یہ ڈرگز (drugs) بھی لی ہے، میں یہ پارٹی کرتی ہوں، میں نے وہ ایڈونچر کیا ہے، میں یہ کر سکتی ہوں، میں وہ کر سکتی ہوں، میں بس لوگوں کے ساتھ کھیلتی ہوں، وغیرہ وغیرہ۔

اس سب کی تہہ میں"شیم" ہوتا ہے۔

کہیں شیم کو ہم اندر محسوس کرتے ہیں اور اسکا اظہار دوسروں کو شرمندہ کرکے یا پھر اکثر اپنا شیم دوسروں پر ڈال کر (projection) اسے محسوس نہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو کہیں اسے باہر کی جانب دھکیلتے ہیں دوسروں کے سامنے اپنا آپ ثابت کرکے کہ کیسے "دیکھتی، دیکھتا ہوں کون کیا بگاڑ لیتا ہے میرا میں وہ سب کروں گی، گا کیونکہ میں کسی سے نہیں ڈرتی، ڈرتا" وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اس قسم کے شدت پسندانہ رویوں کا صرف نقصان ہوتا ہے۔

آپ کی لت (addiction) کی گہرائی میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جب آپ کو شیم کیا جاتا ہے بچپن میں، جب آپ کو ابیوز سہنا پڑا ہوتا ہے جب آپکا دماغ ان بڑے بڑے جذبات اور واقعات کو سمجھ (process) نہیں پاتا، جب سوسائٹی آپ کو آپ کے کھرے پن پر شرمندہ کرتی ہے تب آپ کو وقتی طور پر سکون دینے والی کچھ عادتیں، چیزیں کب لت میں بدل جاتی ہیں پتہ ہی نہیں لگتا۔ آپ گھنٹوں ٹی وی دیکھتے ہیں، ضرورت سے زیادہ خریداری کرتے ہیں، کھانے سے بھوک نہیں بلکہ اندر موجود شیم کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ "شیم" کو پراسس (process) کرنا زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہے تو کیونکہ میں اپنی لت سے خود کو مشغول (distract) یا سن (numb) کر لوں۔

ہماری استاد کہتی ہیں کہ ہمارے ملک کی بنیاد اور آب و ہوا میں شیم بہت گہرائی میں پیوست ہے، ہندوستان سے علیحدگی اور پھر اس کے بعد کے حالات اور ابھی تک اگر آپ جائزہ لیں تو ہمارا معاشرہ شیم جیسی کم ارتعاش والی توانائی (low vibration energy) میں دھنسا ہوا ہے۔ اس ملک کے نظام اور ہمارے معاشرے کو جو بھی قریب سے جانتا ہے وہ اس کی بدصورتی کو مزید گہرائی میں دیکھ لیتا ہے۔

یہاں طاقت کی بھوک اور کمزور کو مزید شیم کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ ہمارے اندر شرمندگی کا احساس بہت گہرائی میں پیوست ہے۔ ہمت ہے بائس کروڑ عوام کی جو رہ رہی ہے اس ملک میں، اس ملک میں رہنے کے لیے خود کو سراہیں کیونکہ اس آب و ہوا میں رہنا آسان نہیں۔ ایک دوسرے کو سراہیں کہ کیسے آپ صبح سے شام تک موجودہ ذرائع میں اس شرمندگی سے بھرے نظام میں اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔

میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ نفسیات دان کہتے ہیں کہ نارساسزم (narcissism) کی تہہ میں شرمندگی (shame) ہوتا ہے تبھی انہیں طاقت اور تعریف کی بھوک ہوتی ہے۔ طاقت اور تعریف کی بھوک ہم سب کو ہوتی ہے لیکن اگر نہ ملے تو ڈپریشن (depression) ہر کسی کو نہیں ہوتا، زیادہ تر نارساسسٹ گزرتے ہیں ڈپریشن سے۔

تعریف اور طاقت کی حقیقت پسندانہ مقدار کا معلوم نہ ہونا نارساسسٹ کو حقیقت کا سامنا کرنے پر ڈپریشن میں لے جاتا ہے۔ کیونکہ حقیقت میں کوئی بھی انسان بس ایک حد تک طاقت، تعریف اور توثیق حاصل کر سکتا ہے اور نارساسسٹ لوگوں کو وہ "حد" معلوم نہیں ہوتی تبھی جب حقیقت سے سامنا ہوتا ہے تو انکی جھوٹی بڑی شبیہ (fake image) ٹوٹ جاتی ہے اور پھر ڈپریشن اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔

اپنے اندر کے شیم کو شفایاب کیجیے، غور کیجیے کہ یہ شیم جو آپ کے جسم میں برے احساسات (unpleasant sensations) لے کر آ رہا ہے یہ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے اپنے فائدے یا محدود نظریات کی وجہ سے آپ میں اس شرمندگی کو منتقل کیا جو اس کے اپنے اندر تھی، جیسے ہمارے ملک کے افسران اور حکمران اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اس نظام میں کمزور کو اور بھی شرمندہ کرتے ہیں کیونکہ شیم سے انسان کو بہت آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ والدین بچوں کو شیم کرتے ہیں تاکہ ان پر اپنا اختیار قائم رکھ سکیں اور میڈیا بھی یہی کرتا ہے۔

شیم سے کیسے نمٹنا ہے؟

وہ سب کام کریں جس سے کرنے سے آپ شیم محسوس کرتے ہیں، جب بھی شرمندگی محسوس ہو تو خود کے الفاظ پر غور کریں ("میں ہمیشہ غلط ہوتا ہوں" کی بجائے یہ بولیں"مجھ سے اکثر غلطیاں ہو جاتی ہیں" ان دونوں جملوں میں نمایاں فرق ہے)۔ آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں آپ جو ہیں جیسے ہیں اللہ نے آپ کو ہر لحاظ سے بہتر بنایا ہے، زین بدھسٹ (Zen Buddhist) کہتے ہیں کہ آپ پہلے ہی کامل (perfect) ہیں تو پھر اتنا شور کیوں مچا رکھا ہے اپنے اندر، انکا یہ فلسفہ وابی سابی (Wabi-Sabi) پر مشتمل ہے جسکا مقصد نامکمل چیزوں اور غلطیوں (معاشرے کی نظر میں) میں خوبصورتی ڈھونڈنا ہے۔

آپ میں یہ شیم اور شرمندگی معاشرے اور لوگوں نے پیوست کی ہے اور وہ بھی اپنے فائدے کے لیے، اس سے خود کو آزاد کریں اور جب آپ آزاد ہو جائیں گے تب آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کو کسی کے سامنے خود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، آپ اور آپ کے جذبات آپ کے اپنے اختیار میں ہیں۔ پھر آپ کو ان بااثر صاحب جنکا میں نے ذکر کیا اور میری طرح کئی لوگوں، کی طرح جان کر دوسروں کو ثابت کرنے کے لیے وہ سب کرنے کی ضرورت نہیں جس میں آپ کو دلچسپی نہیں۔

شرمندگی (shame) اور احساسِ جرم (guilt) میں فرق۔

احساسِ جرم (guilt) تب ہوتا ہے جب آپ سے کوئی غلطی ہو جائے یا کوئی بھی برا رویہ جس کی آپ معافی مانگ لیتے ہیں۔

لیکن شرمندگی (shame) سے مراد یہ ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ میں کمی ہے، یا آپ کسی خاص چیز کے حقدار نہیں، آپ میں کوئی مسئلہ ہے، یہ بہت گہرائی میں ہوتا ہے، آپ کو لگتا ہے کہ آپ بنیادی طور پر ناقص ہیں، اور اس ناقص والے احساس کو محسوس نہ کرنے کے لیے آپ وہ سب کرتے ہیں جو آگے چل کر آپ کو مزید تکلیف دیتا ہے۔

Check Also

Pensionary Fawaid Ke Baray Mein Peshawar High Court Ka Faisla

By Rehmat Aziz Khan