Dopamine Nation (4)
ڈوپامین نیشن(4)
بہت سے انسانوں کی مانند مجھے بھی لت تھی، کھانے اور کافی کی لت۔ میں اپنا پلیژر کھانے سے حاصل کرتی تھی اور سارا دن کافی پیتی تھی، دین، ایمان، عشق محبت، کام سب بس کھانا ہی تو تھا۔ میں فلمیں نہیں دیکھتی لیکن کھانے اور کافی سے متعلق کوئی ایسی ڈاکیومنٹری نہ ہو گی جو میں نے دیکھ نہ رکھی ہو، سوشل میڈیا پر بھی کھانے والی وڈیوز ہی دیکھتی تھی۔
جب ٹین ایجر تھی تب جنک فوڈ اتنا نقصان نہیں دیتا تھا کیونکہ ٹین ایج (teenage) میں جوانی ہمارے عیب پر پردہ ڈال دیتی ہے، میں پتلی تھی لیکن تقریباً تیئس سال کی عمر کے بعد میرا وزن بڑھنا شروع ہوا۔ تکلیف دہ جذبات سے لڑنے کے لیے میرے پاس ایک ہی ہتھیار تھا "کھانا"۔ جب معاملہ میری خراب صحت پر آیا تو پھر مجبوراً وزن کے متعلق سوچنا پڑا۔ میں نے چھتیس کلو (36kg) وزن کم کیا ہے۔
وزن کم کرنے کے لیے مجھے ڈوپامین سے پرہیز کرنے سے گزرنا پڑا، یہ بہت لمبا اور غلطیوں سے بھرپور سفر تھا۔ جب جسم سے چربی کم ہوئی تو انکشاف ہوا کہ، دماغ، پر بھی اچھی خاصی چربی ہے جسے کم کرنا بہت ضروری ہے، مطلب یہی کہ سوشل انزائٹی، جذبات، خود توقیری (self-esteem)، وغیرہ سے وابستہ مسئلے تھے مجھے، کھانے کے علاوہ میرے اور بھی کئی فرار (escape) تھے جنکا سامنا کرنا ضروری تھا۔
جتنا بڑا پلیژر ہوتا ہے اسے دماغ میں درد کے ساتھ توازن میں لانے کے لیے تکلیف بھی اتنی ہی ہوتی ہے، کسی وقت چینی سے اتنا زیادہ پرہیز کیا کہ پھل تک کھانا چھوڑ دیے کیونکہ اس میں بھی چینی ہوتی ہے، بھوکے رہنا، ایک وقت کے لیے میں سخت قسم کی سبزی خور (vegetarian) والی غذا پر آ گئی۔ سوشل میڈیا کو ایک سال کے لیے بند کر دیا تاکہ خود پر غور کر سکوں لیکن ایک غلطی ہوئی کہ واٹس ایپ نامی ایک ایپ کو نہیں ہٹایا فیملی اور دوستوں کی وجہ سے اور پھر پلیژر وہاں سے ملنے لگا۔
(آپ ایک پلیژر کو دوسرے سے بدل کر اپنا دماغ توازن میں نہیں لا سکتے، ڈوپامین کو توازن میں لانے کے لیے پلیژر سے پرہیز ضروری ہے) اسٹیٹس پر تصاویر لگا کر لوگوں کی توثیق (validation) اور توجہ (attention) حاصل کر کے۔ اس غیر صحتمندانہ توجہ اور توثیق کو نارمل کیا، لیکن اس نئے پلیژر نے میری خود توقیری (self esteem) کو بہت نقصان دیا تھا۔ یہ کبھی نہ بجھنے والی پیاس ہوتی ہے، جس میں آپ بار بار اسٹوری کے ویوز (views) دیکھتے ہیں اور ہر ایک ویو (view) پر دماغ میں ڈوپامین خارج ہوتا ہے۔
کسی ٹائم میڈیٹیشن کو اتنے زیادہ دورانیہ کے لیے اور غلط تکنیک کے ساتھ کیا کہ بیہوش ہوتے ہوتے بچی اور بہت دقت بھی ہوئی۔ ورزش بھی تین گھنٹے کرتی جیسے مجھے پیرس میں کسی فیشن شو میں ماڈلنگ کرنی ہےمستقبل میں، یوگا کو بھی بیوقوفوں کی طرح کیا۔ جرنلنگ اتنی کہ کاپیاں بھر گئیں۔ سوشل انزائٹی تھی تو جان بوجھ کر گھومتی، مزہ کم اور تکلیف زیادہ ہوتی گھومنے سے لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہی تکلیف اور درد مجھے توازن میں لے کر آئے گا۔
فوکس کرنا میرے لیے مشکل تھا تو جان بوجھ کر غیر افسانوی (non fiction) اور انتہائی مشکل کتابیں پڑھتی اور یوں مطالعہ کے ذریعے میں نے اپنے فوکس کو تھوڑا بہتر کیا۔ تقریباً ہر وہ کام کیا، ہر اس صورتِ حال میں خود کو ڈالا جہاں سے بوریت، گھبراہٹ، اکتاہٹ ہوتی یا تکلیف ملتی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ فلاح کا راستہ یہیں سے ہو کر جاتا ہے۔
آج سب کچھ اپنی جگہ کافی حد تک واپس آ چکا ہے، میڈیٹیشن اب آدھے گھنٹے اور ورزش پینتیس منٹ پر آ چکی ہیں۔ لیکن یہ سب شدید رویوں کا تعلق شاید درد، پلیژر کو توازن میں لانے کے لیے ہوتا ہے، آپ اس سب سے گزر کر غلطیاں کر کے اپنے لیے ایک بہتر لائف اسٹائل اپنی شخصیت، ثقافت، ٹائم اور مالی حالات کے حساب سے تشکیل دیتے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں یہ سب کوششیں نہیں کروں گی تو اپنی مشکلات (sufferings) کو دوگنا کر دوں گی۔ لیکن یہ سفر آسان نہیں ہوتا، آپ کئی بار گر کر دوبارہ اٹھتے ہیں۔ خود احتسابی (self efficacy) کو عادت بنانا بہت ضروری ہے۔
اب ایسا نہیں ہے کہ میری کہانی میں"اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے" والا معاملہ ہے، دماغ کی چربی پگھلانے کا سلسلہ جاری ہے اور مرتے دم تک جاری رہے گا۔ البتہ اتنا فرق ضرور پڑا ہے زندگی میں کہ اب میں دوسروں کی بھی مدد کرنے اور انہیں سپورٹ کرنے کے قابل ہوئی ہوں، جب کہ آج سے پہلے میں خود بے سہارا تھی تو کسی اور کو کیا سہارا یا مشورہ دیتی۔ نشئی، لت کا شکار اور محض باتیں کرنے اور ان پر عمل نہ کرنے والے لوگ نہ خود کو سہارا دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ارد گرد والوں کو۔
(کتاب کا اگر اور بھی تفصیل سے ریویو دیتی تو شاید خود ہی ایک کتاب لکھنی پڑ جاتی، شاید اتنی تفصیل کافی ہے ڈوپامین اور اس کے متعلق سرسری معلومات دینے کے لیے۔)