Dimagi Narcissist
دماغی نارساسسٹ
ایک مرتبہ ایک جناب نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ زیادہ پڑھتے ہیں یا جس چیز کا پرچار کرتے ہیں، انکا اس پر عمل نہیں ہوتا، مطلب یہی کہ جو بھی دانشور لوگ ہوتے ہیں، انکا اپنے سکھائے علم پر عمل نہیں ہوتا۔ کیا ایسا واقعی میں ہوتا ہے؟ میں نے مغرب کے ایسے کئی سائنسدانوں اور دانشوروں کو پڑھا ہے اور انہیں فالو کرتی ہوں، جو فلسفہ وہ پڑھاتے ہیں، اس پر انکا عمل بھی ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ڈاکٹر کال نیوپورٹ جو کہ ایک کمپیوٹر سائنسدان ہیں اور سوشل میڈیا کے خلاف ہیں، انکا سوشل میڈیا پر کوئی اکاؤنٹ موجود نہیں، ان سے طالب علم اور پیشہ ور لوگ پروڈکٹوٹی (productivity) اور کیریئر (career) پر مشورہ لینے کے علاوہ اکثر کام اور فیملی کے درمیان توازن (work-life balance) کو برقرار رکھنے کے متعلق بھی سوالات پوچھتے ہیں، کیونکہ ڈاکٹر نیوپورٹ تین بچوں کے باپ ہیں، فیملی اور اس سے وابستہ مسائل کو سمجھتے ہیں۔
ایسا نہیں دوسروں کو کام اور فیملی پر مشورے دیتے ہیں۔ جب کہ خود کی کبھی شادی ہی نہیں ہوئی۔ میں اوشو (osho)، جدو کرشنا مورتی (Jiddu krishna murti)، ایلن واٹس (Alan watts) وغیرہ اور ان جیسے روحانی استاد/فلسفی کے متعلق شک و شبہات میں مبتلا رہتی ہوں (ضروری نہیں کہ آپ کو بھی شک ہو)، انکا لکھا علم پڑھا ہے، میں نے، جو بات پسند آئی اس کو زندگی میں شامل بھی کیا۔
لیکن زیادہ تر بہت مثالی (idealistic) باتیں ہوتی ہیں۔ ایسے دانشوروں کی، جس سے خود کو وابستہ کرنا ہم عام لوگوں کے بس کی بات نہیں، کیونکہ ہماری زندگی کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور یہ سب اس پیچیدگی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ چونکہ یہ متنازعہ(controversial) لوگ ہیں، انکی زندگی کے اوائلی سالوں پر اگر نظر ثانی کی جائے تو یہ ٹروما (trauma) سے گزرے ہیں، ان میں سے کئی روحانی استاد اور فلسفی نارساسسٹ (narcissist) ہوتے ہیں۔
جو لوگ ٹروما سے گزرے ہوں یا جذباتی طور پر کمزور ہوں، وہ ایسے استادوں اور فلسفی کے چارم (charm) کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں۔ ایلن ڈی بوٹن بھی فلسفی ہیں، انہوں نے سائیکالوجی اور فلسفہ کا بہت ہی خوبصورت اور حقیقت پسندانہ ملاپ پیش کیا، جسکا ہماری عام زندگی سے گہرا تعلق ہے، وہ "والدین اور بچوں کے درمیان اوائلی سالوں میں تعلقات اور ان تعلقات سے جنم لینے والے نفسیاتی مسائل" اور عام زندگی میں انسانوں کی جذباتی الجھنوں کا نفسیات اور فلسفہ دونوں کے نقطہ نظر سے جائزہ لینا سکھاتے ہیں۔
آپ کی زندگی میں جو پہلا رسم الخط (script) لکھا جاتا ہے۔ جسے آپ کے والدین/گھر والے لکھتے ہیں، وہ آپکی زندگی کے ہر پہلو پر نمایاں ہوتا ہے۔ پہلا رسم الخط، الفاظ نہیں بلکہ، انرجی (energy) اور غیر زبانی اشاروں (non-verbal cues) میں لکھا جاتا ہے، یہ والا اسکرپٹ آپ کے عصبی نظام (nervous system) میں چپک جاتا ہے، اگر اسکرپٹ ابیوز/ٹروما/محدود نظریات پر مبنی ہی کیوں نہ ہو، آپ اس کی جگہ نیا اسکرپٹ لکھ کر خود کو شفایاب (heal) تو کرتے ہیں۔
لیکن پھر بھی پہلا والا اسکرپٹ ہوا میں اڑ نہیں جاتا، بلکہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے، آپ اس کو اپنی زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ اس لیے اندازہ لگائیں کہ والدین ہونا کتنی بڑی ذمہ داری ہے اور ایک سماجی مخلوق ہونا کتنی بڑی سزا، خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی، فلسفہ اور دانشوروں کے ذکر پر آتے ہیں، ڈاکٹر رامنی جو کہ نارساسزم پر ماہر ڈاکٹر ہیں، کہتی ہیں کہ وہ ایسے کئی قابل لوگوں سے ملی ہیں۔
جن کے پاس علم کا خزانہ ہے، لیکن وہ اپنے علم کے ساتھ سکون سے بیٹھنا اور وقت گزارنا جانتے ہیں، جبکہ نارساسسٹ اور ایسے لوگ جو ٹاکسک ہوتے ہیں، وہ علم حاصل ہی اس لیے کرتے ہیں کہ چار لوگوں کا جھمگٹا بنا کر لیکچر دے سکیں، اور اپنے "لفظوں" کے کھیل سے توثیق (validation) حاصل کرسکیں، ایسے لوگ معاملات کو سیاہ سفید (black and white) کی نظر سے دیکھتے ہیں، دوسروں پر اپنے علم کی بجلیاں گراتے ہیں۔
(لیکن عمل کوئی نہیں)، نارساسسٹ کی اس قسم کو "دماغی نارساسسٹ" (Cerebral Narcissist) کہتے ہیں۔ ایسے نارساسسٹ اپنے جسم کے ایک حصے سے محبت کرتے ہیں اور اسے "دماغ" کہتے ہیں، ان کے لیے باقی کا جسم فضول اور بیکار ہوتا ہے، یہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے، انہیں اچھا دکھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی، یہ خود کو بہت ذہین (smart) سمجھتے ہیں۔
ان کے پاس گہرائی میں علم نہیں ہوتا، یہ سرسری علم حاصل کرتے ہیں۔ جس پر ساری زندگی قائم رہ کر دوسروں کو ہمیشہ غلط اور خود کو صحیح سمجھتے ہیں۔ نارساسسٹ کی اور بھی کئی قسمیں ہیں۔ لیکن اکثر فلسفی، مذہبی/روحانی استاد اور دانشور "دماغی نارساسسٹ" (cerebral narcissist) ہوتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان صاحب نے مجھے کہا کہ اکثر دانشور، روحانی استاد/فلسفی کا اپنی بتائی باتوں پر عمل نہیں ہوتا۔
کیونکہ بہت ممکن ہے کہ وہ نارساسسٹک پرسنلٹی ڈساڈر کا شکار ہوں اور نارساسزم کی جس قسم کا وہ شکار ہوں، اسے "دماغی نارساسسٹ" کہتے ہیں۔ اور یہاں جو بات ضروری ہے وہ یہ کہ ایسے استادوں کی جانب وہی لوگ عموماً کشش محسوس کرتے ہیں۔ جن کی اپنی جذباتی صحت (emotional health) اچھی نہیں ہوتی یا پھر وہ لوگ جو خود بہت ذہین ہوتے ہیں وہ "دماغی نارساسسٹ" کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں۔
ایسے لوگ روحانی استاد/فلسفی کے ساتھ "ٹروما بونڈ" (trauma bond) بنا لیتے ہیں اور نارساسسٹ کو توثیق (validation) مل رہی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر فلسفی جو اپنی بات پر عمل پیرا نہ ہو نارساسسٹ ہو، لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے۔ اس کے لیے دوسروں کو الزام تراشیاں نہیں کرنی ہوتی، بلکہ اپنے جذباتی زخم (emotional wounds) بھرنے ہوتے ہیں، حقیقت پسند بننا ہوتا ہے تاکہ آپ نارساسسٹ کا مقناطیس نہ بنیں۔