Tehreek e Insaf Ki Ehtejaji Siasat
تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست
شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پندرہ اور سولہ اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔ دنیا کی نظر میں پاکستان کا امیج مزید بہتر ظاہر کرنے کایہ ایک اہم موقع ہے۔ لیکن حیران کن طور پر پی ٹی آئی نے جانتے بوجھتے ہوئے خصوصی طور پر پندرہ اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا ہے جس سے اس جماعت کے فتنہ فسادی اور شر پسند ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا۔ کم از کم SCO سمٹ کے موقع پر پی ٹی آئی کو احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔ حالانکہ اگر برتن کھلا ہو تو بلی کتا بھی شرم کر لیتے ہیں اور منہ نہیں مارتے۔
تحریک انصاف کو علم نہیں کہ یہ بین الاقوامی سمٹ اور کانفرنسیں ہی ہوتی ہیں جس سے بیرونی ممالک، کسی ملک کے حالات کا، امن و امان کا، خوبصورتی کا، تہذیب کا اور قانون کا مجموعی تاثر لیکر جاتے ہیں اور اسی کے پیش نظر باہمی سرمایہ کاری اور کھیلوں کو فروغ دیا جاتا ہے اور اگر علم ہے بھی تو پھر بھی احتجاج کا اعلان ملک کے ساتھ غداری سے کم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے احتجاج کا حصہ بننے کی پی ٹی آئی کی دعوت کیا معنی رکھتی ہے؟ شاید کرسی کے چھننے کے غم میں مبتلا پی ٹی آئی میں بھی ایم کیو ایم الطاف کی ڈگر پر چل پڑی ہے جو بھارت سے مدد مانگ رہی ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی مخصوص وڈیوز بھی پی ٹی آئی ہینڈل سے ماضی قریب میں آپ لوڈ کی جاتی رہی ہیں۔ لہذا ہماری دانست میں معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اس کا حل آہنی ہاتھوں سے نمٹنے میں ہی پوشیدہ ہے۔
ہٹ دھرمی کی انتہا کا عالم ہے کہ گذشتہ ڈھائی سال سے آج تک پی ٹی آئی ایک دفعہ بھی آرام سے نہیں بیٹھی۔ آئے روز، بے موسمی، لایعنی، بے مقصد اور فضول جلسے جلوس، سڑکوں چوراہوں پر احتجاج اور دھرنے پی ٹی آئی کا روزانہ کا معمول رہا ہے۔ ناچنے گانے کا کوئی اور طریقہ بھی تو ڈھونڈا جا سکتا ہے، کوئی ضروری تو نہیں کہ عوام کو مشکلات میں ڈال کراور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر ہی یہ شوق پورا کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے درجنوں احتجاجوں سے تو اچھا احتجاج جماعت اسلامی کا ہے جس کا ایجنڈا عوامی مسائل اور بجلی قیمتوں میں کمی ہے۔
تحریک انصاف کے نان سٹاپ احتجاج کا تعلق نہ عوام سے ہے اور نہ قانون سے۔ ایسا احتجاج سراسر دنگا فساد کے ذریعے عمران خان کی رہائی اور کرسی حاصل کرنے کی ایک ناکام اور غیر جمہوری کوشش ہے۔ عوام کو ایسے کسی احتجاج سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ان کے مسائل بھوک، ننگ، تعلیم، مہنگائی، صحت، روزگا ر، سر چھپانے کو چھت اور ماحولیاتی آلودگی ہیں۔ ان عوامی مسائل میں کسی ایک پر بھی پی ٹی آئی نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔ بلکہ اس کا محور صرف عمران خان کو غیر قانونی طو ر پر جیل سے رہا کرانا ہے اور ان پر جو مقدمات ہیں بالخصوص توشہ خانہ اور نو مئی کے، ان سے بری کرانا ہے۔ آصف علی زرداری نا حق جیل میں رہے مگر پیپلز پارٹی نے زرداری کی رہائی کے لیے احتجاج اور دنگے فسادوں کا کبھی سہار نہیں لیا۔ اسی طرح نواز شریف بھی جیل میں رہے مگر رہائی بذریعہ احتجاج کی روش نہیں اپنائی گئی۔ یہ الگ بات کہ رہائی انڈر گراؤنڈ معاہدے کے تحت سعودی عرب نے کروائی۔
اپریل 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اِن ہاؤس تبدیلی لاتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے تحت ذریعے تبدیلی لائی گئی اور عمران نیازی کو کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے غیر آئینی اور غیر قانونی معہ غیر اخلاقی طریقے استعمال کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو متعدد بار خود ساختہ رولنگز کے ذریعے سبوتاژ کیا اور یہی کھیل پنجاب اسمبلی میں بھی کھیلا گیا۔ پی ٹی آئی کی اس غیر سیاسی اور دادا گیری پر مشتمل ذہینت کی وجہ سے وہ سنجیدہ طبقہ بھی اس سے مایوس ہوگیا جو تھوڑا بہت پی ٹی آئی کو سراہتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کا مقابلہ سیاست سے کرنا ہی سیاستدانوں پر سجتا ہے اور اس بارے پیپلز پارٹی کا کوئی ثانی نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی آپشن بھی پیپلز پارٹی نے ہی متعارف کروائی تھی جبکہ ن لیگ دھرنوں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے پی ٹی آئی کو گھر بھیجنا چاہتی تھی۔
سن بیس سو سترہ میں منتخب وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ کیس کی پاداش میں سپریم کورٹ نے گھر بھیج دیا۔ اس کے بعد نئے الیکشن کی مہم شروع ہوئی تو سوائے پاکستان تحریک انصاف کے کسی بھی سیاسی پارٹی بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ٖف) کو میڈیا پر کوریج نہ دی گئی۔ گویا عمران خان کو الیکشن سے پہلے ہی وزیراعظم بنا دیا گیا تھا۔ اسی عرصہ میں میڈیا بلیک آؤٹ پی ٹی آئی کے دور میں ہوا۔ بیس سو اٹھارہ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو اس قدر زیادہ کوریج دی گئی اور کوریج نہ دینے والے میڈیا پر قدغنیں لگائی گئیں کہ جس سے صاف تاثر پھیلا کہ پری پول دھاندلی ہو رہی ہے۔ لیکن کسی بھی پارٹی نے دن دھاڑے اس پری پول رگنگ کے خلاف دنگا فساد کا سہارا نہ لیا۔ اگر احتجاج کیا بھی تو محدود طور پر، پر امن رہتے ہوئے کیا گیا نہ کہ پی ٹی آئی کی طرح پاکستان کی ساکھ متاثر کرنے کی طرز پر احتجاج کا سہارا لیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور میں کوئی معرکہ سر نہیں کیا تھا کہ عوام اس کے احتجاج میں شرکت کریں اور اسے دوبارہ کرسی سے نوازیں۔ عمران خان نے پاکستان کے وژن، انصاف اور ملک کے بہتر مستقبل کا وعدہ کرکے بیس سو اٹھارہ کا انتخاب لڑا۔ اپنے دور حکومت میں ایک بھی وعدہ پورا نہ کیا۔ پچاس لاکھ گھروں کا نعرہ ڈھکوسلہ ثابت ہوا۔ نیا پاکستان کا نعرہ ریاست مدینہ کے نعرے میں بدلا مگر ناچ گانا ان کے جلسوں جلوسوں اور احتجاجوں میں مزید تیزی سے ہونے لگا۔ صحت سہولت کارڈ نے بظاہر عوام کو کچھ فائدہ پہنچایا لیکن درپردہ اس سے پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس کو نوازا گیا۔ نیازی دور میں صرف ایک ہی کام پایہ تکمیل تک دیکھا گیا اور وہ تھا کرتارپور راہداری۔ بلاشبہ یہ ایک اچھا اقدام تھا جس سے سکھ برادری کو بہت سہولت میسر آئی۔
بجا کہ جمہوری ملک میں جلسے، جلوس، دھرنے، احتجاج، لانگ مارچ، آزادی مارچ اور تحریر و تقریر ہر شہری کا ایک بنیادی حق ہے۔ لیکن جب ایسا حق شہریوں کی حق تلفی، آئین و قانون کی خلاف ورزی، سالمیت پر خوف کے بادل بنائے اور سیاسی، داخلی، خارجی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرے تو اسے احتجاج نہیں بلکہ دھونس دھاندلی اور دہشتگردی کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی جماعت بننے کے لیے اپنے اندر سیاسی سوچ کی پرورش کرنی ہوگی، سنجیدہ سیاست کا عصا تھامنا ہوگا۔ شرپسندی ملک کی کوئی خدمت نہیں ہے بلکہ یہ غیر ملکیوں کی خدمت ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنی اس پالیسی کو خیر باد کہہ کر سیاست کرنی چاہیے۔ ڈائیلاگ کو اپنانا چاہیے اور پاکستان کی ترقی و سلامتی و بقا کے لیے سیاست کو آڑے نہیں آنا دینا چاہیے اور ڈی چوک پر پندرہ اکتوبر کواحتجاج کی کال واپس لے لینی چاہیے کیونکہ بقول شاعر:
لازم یہی ہے کر لیں خطاؤں کا اعتراف
ساعت یہ درگزر کی ہے، وقتِ دُعا بھی ہے