Sarmaya Dari Aur Insan
سرمایہ داری اور انسان
جس انسان کو اپنی زندگی میں دوستوں، بیلیوں، خاندان و رشتہ داروں کے ساتھ وقت گذارنے اور گپ شپ کے مواقع دستیاب ہوں، اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہو، خوبصورت و با مقصد اور روح کے تاروں کے ہِلا دینے والی موسیقی سُننے کو ملتی ہو اور یا پھر بغیر سپیکرکے یا انتہائی کم ایمپلی فائر پر(شاید ہی کوئی ایسا سپیکر ہو) اذان کی آواز سُننے کو ملتی ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسے لوگ مادی زندگی ہی میں "جنت" کا ذائقہ (حوروں کے سوا) چکھ لیتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں کون سا ایسا معاشرہ موجود ہے جس میں یہ، جنت، نظر آتی ہو؟ انفرادی طور پر ایسے خوش نصیب افراد دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ لیکن جب بات معاشرہ کی ہو تو دنیا کا کوئی بھی معاشرہ خطہ عرض پر موجود نہیں ہے جو اس ضمن میں "بد قسمت" نہ ہو۔ وجہ یہ کہ پوری دنیا میں بلواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سے سرمایہ داری نظام رائج ہے۔ اس نظام میں انسان ایک دوسرے کے لیے انجانے بن جاتے ہیں۔ یہ نظام ایک دوسرے میں فاصلہ پیدا کرتا ہے، ایک انسان کو انسان کے قریب نہیں بلکہ دُور کرتا ہے۔ یہ ایسا نشئی قسم کا نظام ہے کہ مادہ پرستی، کو، باغِ عدن، دکھا کر انسان کو ورغلا لیتا ہے اور بھولا انسان اس نظام کے چُنگل میں پھنس جاتا ہے۔
ایسا معاشرہ جہاں تعلیم صرف پیسہ کمانے کے لیے حاصل کی جاتی ہو نہ کہ ایک با ذوق، بھلامانس، نیک، ہمدرد، نرم دل، خیر خواہ، منطق پسند، انسان دوست بننے کے لیے حاصل کی جاتی ہو اور یہی آج ہر جگہ خصوصاً پاکستان میں ہو رہا ہے، ہر دوسرا اسٹوڈنٹ کامرس، اکاونٹنگ، بینکِنگ مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف بھاگ رہا ہے محض روپے پیسے کا ڈھیر حاصل کرنے کے لیے۔ تو ایسا معاشرہ، مادیت پسند، ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک شبے والی بات نہیں کہ سفاکیت، چنگیزیت، بربریت، درندگی، اندوہناکی اور وحشت و دہشت کے غیرفطری انسانی جذبات نے انسان کی تباہی و بربادی میں تو قدرت کے، انتقام، کو بھی کئی ہاتھ پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سیلاب یکمشت اور اچانک تباہی نہیں مچاتا بلکہ سنبھلنے کا وقت دیتا ہے۔ اسی طرح زلزلہ بھی جب آتا ہے تو چند لمحات انسان کے پاس ہوتے ہیں کہ وہ کھلی جگہ پر پہنچ جائے۔ قدرت انسان کو بھاگنے اور محفوظ مقام تک جانے کا وقت و موقع ضرور دیتی ہے۔ برعکس قدرت کے، آج کا انسان، انسان کو بھاگنے تو کیا سانس تک لینے کا موقع بھی نہیں دیتا۔
سرمایہ داری نظام کا آج کا انسان اس حد تک سفاک بن چکا ہے کہ اس نے قدرت کی ستم ظریفیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ نظام گڑ دیکر مارتا ہے تاکہ اس کی سفاکیت پر پردہ پڑا رہے۔ قدرت کی ستم ظریفیوں پر انسان سوائے خاموشی اور لبیک کے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ سیلاب اور زلزلے آنے پر انسان میں قدرت کے خلاف انتقام کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ دوسری طرف جب انسان اپنی ہی نوع کے انسان کو مارتا ہے تو، انتقامی جذبات، کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو نسل در نسل کئی دہائیاں چلتا ہے اور بہت سے انسانوں کا خون بہتا ہے۔ اس تناظر سے بھی قدرت کی ستم ظریفی، انسان کے جذبات کی سنگینی و تلخی کے سامنے مانند پڑتی نظر آتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا انسان آخر ایسا کیوں ہوگیا ہے کہ اسے، وحشی دَور، کے انسان سے تشبیہ دی جانے لگی ہے؟ راقم کے خیال میں اس کی صرف دو ہی بنیادی وجوہات ہیں۔ مادہ پرستی اور روحانیت سے ناواقفیت۔ دیگر الفاظ میں، سرمایہ داری نظام، اور، ملاں ازم، دو ایسی بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج کا انسان مہذب ہونے کے باوجود بھی، غیرمہذب ہے۔
المختصر، مسائل نفسیاتی ہوں، صحت کے ہوں، اخلاقی ہوں، روحانی ہوں یا معاشرتی ہوں، ان سب کا سبب سرمایہ دار ہے۔ صنعتی دور نے انسان کو جہاں مشین بنا کے رکھ دیا ہے وہیں پر انسانیت کو بری طرح متاثر کیا ہے، سماجی ڈھانچے بدل دیے گئے ہیں۔ اگرچہ مشینوں کی ایجاد و استعمال نے مادی ترقی خوب کرلی ہے مگر انسان کو بے حس بنا دیا ہے، اس کے دل میں اب وہ سوز، وہ محبت، وہ دل گدازی، وہ درد نہیں رہا جو میرے بچپن کے زمانہ میں ہوتا تھا۔ مادہ پرستی کرکے آج کا انسان مذہب سے دور ہوگیا ہے۔ ہر وقت نفع نقصان، ملینری، بیلنری بننے کے طریقے سوچتے سوچتے انسانی اقدار بارے سوچنا ترک کر دیا ہے۔
آج کا انسان جذبات و احساسات سے بے بہرہ ہو چکا ہے۔ انسان صرف جسم کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی روح بھی ہے، جذبات بھی رکھتا ہے اور احساسات بھی۔ سرمایہ داری نظام یہ سب اپنے قبضے میں کر رہا ہے۔ صارف بنا کر انسان کو کسی اور طرف سوچنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ اس نظام سے چھٹکارا ہی ان سب مسائل کا حل ہے اور اس کے لیے انسان کو واپس روحانیت اور مذہب سے رجوع کرنا ہوگا۔ مذہب اور ملاں ازم میں فرق کرکے منزل حاصل کرنی ہوگی کیونکہ یہ ملاں ازم سرمایہ دار ہی کا آلہ ہے۔