Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Lahore Samog Ke Narghe Mein

Lahore Samog Ke Narghe Mein

لاہور سموگ کے نرغے میں

اگرچہ گذشتہ کئی سالوں سے اکتوبر کے آخری ہفتے سے ہر سال باقاعدگی کے ساتھ سموگ حملہ آور ہوتی آ رہی ہے لیکن رواں سال لاہور میں سموگ نے اگلے پیچھے تمام ایئر کوالٹی انڈیکس کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اورسانس لینا دوبھر ہوا جا رہا ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان سب کھانسی، بخار، زکام اور شارٹنیس آف بریتھ کا شکار ہو رہے ہیں۔ لاہور پر سموگ کا حملہ ازخود ہی نہیں ہوا بلکہ دیدہ یا نادیدہ طور پر اس کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ بھارتی پنجاب پر فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کو سموگ کی بڑی وجہ قرار دینا قطعاً درست نہیں ہے بلکہ پنجاب حکومت کی یہ اپنی کوتاہیوں اور نادانیوں پر دن دھاڑے پردہ ڈالنے کی ایک منحنی سی غیر منطقی کوشش ہے۔

کہا جاتا ہے کہ دھواں سموگ کی بڑی وجہ ہے۔ لیکن یہ دھواں صنعتوں کا ہے نہ کہ گاؤں کا یا فصلوں کے مُڈوں کو آگ لگانے کا۔ وجہ یہ کہ صنعتوں کا دھواں مختلف مضر صحت گیسیں اپنے اندر رکھتا ہے۔ ٹیکسٹائل، اسٹیل ملز اور ادویات کی صنعتوں میں پراڈکٹ تیار کرنے کے دوران مختلف کیمکلز کے جلنے سے نکلنے والا دھواں دراصل بائیولوجیکل اٹیک کی ایک شکل ہے۔ یہ دھواں انسانی صحت کے لیے تباہ کن ہے اور اسے شوگر مرض کی طرح خاموش قاتل کہنا بعید از قیاس نہ ہوگا۔

دوسری طرف دیہاتوں کا دھواں کیمیکلز سے پاک ہوتا ہے اور اسے نیچرل دھواں کہا جائے گا۔ اگر یہ اتنا ہی خطرناک ہوتا توہمارے بزرگوں کی اوسط عمر موجودہ بزرگوں کی نسبت زیادہ نہ ہوتی۔ حالانکہ ہمارے والدین، دادکے، نانکے انہوں نے ہانڈی روٹی کے لیے سوئی گیس اور ایل پی جی جیسی گیسز استعمال نہیں کیں کہ ادھر تیلی لگائی اُدھرآگ جل گئی۔ بلکہ یہ فطری ایندھن کا استعمال کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے بالن کا ذخیرہ کیا جاتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ٹاہلی پر چڑھ کر کلہاڑی سے میں چھوٹی چھوٹی شاخیں کاٹ کر نیچے گراتا تھا جبکہ بڑی شاخیں چاچا جی کاٹتے تھے۔ یہ ٹاہلی ہماری پئیلیوں کے احاطے میں ہوتی تھی۔ اسی طرح گاؤں میں وہیلی (مال ڈنگر رکھنے والا پلاٹ) میں بھینسوں، گائے، بیل، ویہڑ جیسے مال ڈنگر کے فضلے سے ہماری زنانیاں پھاتیاں تھاپا کرتی تھیں جو سوکھ کر آگ جلانے کے کام آتی تھیں اور یا پھر کھیتوں میں روڑی ڈالنے کے کام بھی فضلہ آتا تھا۔ معمولی سی چنگاری کو پھونکنی سے پھونکیں مار مار کر آگ جلائی جاتی تھی اور پھونکنی سے ہوا دینے والے کی آنکھوں، ناک، منہ اور پھیپھڑوں میں دھواں چلا جاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے بزرگ صحت میں موجودہ نسل سے دو گناہ ہٹے کٹے تھے۔ وجہ یہ کہ وہ کیمیکل ملے دھویں سے بچے رہے تھے۔

ہماری حکومتیں محض پوائنٹ سکورنگ کے لیے بیانات داغتی رہتی ہیں۔ لیکن عملی طور پر انہیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، انہیں صرف اپنے اقتدار اور اپنے کاروبار سے غرض ہوتی ہے۔ حکمرانوں میں لینڈ مافیا اور صنعتی مافیا پیش پیش ہے۔ اس مافیا کے ہوتے ہوئے سموگ کو روکنے کی کسی سنجیدہ کوشش کی امید رکھنا ایسے ہی ہوگا جیسے بلی کو دودھ کی رکھوالی سونپ دینا۔ انیس سو نوے کی دہائی میں لاہور پالوشن فری تھا۔ ایف سی کالج سے گجومتہ تک لہلاتے کھیت تھے۔ اسی طرح ایف سی کالج سے چوہنگ، ٹھوکر، جوہر ٹاؤن، واپڈ ا ٹاؤن، باگڑیاں، ہلوکی، سادھوکی، رکھ چندرائے اور ریلوے لائن کے ارد گرد ہر طرف فصلیں تھیں۔ سردیوں میں سرسوں کا ساگ عام تھا۔ میں خود ساگ توڑنے ستو کتلا جاتا رہا تھا۔

اور پھر اچانک لینڈ مافیا کا دجال آ گیا اور ایسا ڈیرہ ڈالا کہ آج لاہور کے مضافات میں فصلوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا اژدھا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ تمام ہریالی کو جڑوں سے اکھاڑ دیا گیا ہے۔ درختوں کا کاٹ کر سڑکیں چوڑی کی جاتی ہیں۔ لاہور میں ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کا آغاز خود حکومت پنجاب نے کیا اور سب جانتے ہیں کہ یہاں ن لیگ ہی کی حکومت رہی جو کہ صنعتکاروں، تاجروں اور آڑھتیوں کا ایک گروہ ہے۔ ایسے گروہ سے انسان دوست اور ماحول دوست پالیسیوں کی امید رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں نہیں پیدا ہوتا، اس کے لیے بابائے سوشلزم کارل مارکس کی ایک کتاب بعنوان سرمایہ کا مطالعہ ہی کافی ہوگا۔

سموگ کی ایک اور بڑی وجہ ناکارہ اور بیہودہ ٹرانسپورٹ سسٹم ہے۔ لاہور کا ٹرانسپورٹ سسٹم ہمیشہ ہی ڈانواں ڈول رہا ہے۔ چنگ چی رکشے، آٹو رکشے، موٹر سائیکلیں، کاریں ہی ہر جگہ دوڑتی نظر آتی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ آبادی اور گنجان آبادیوں کے تناسب سے نہیں چلائی گئی۔ میٹرو بس گجومتہ سے چلتی ہے اور شاہدرہ تک جاتی ہے۔ یہ صرف انہی مسافروں کو سہولت دیتی ہے جو فیروز پور روڈ کے ساتھ ساتھ رہائش رکھتے ہیں یا دفاتر ہیں۔

اورنج لائن ٹرین ٹھوکر نیاز بیگ سے ڈیر ہ گجراں تک کا روٹ رکھتی ہے اور یہ صرف انہی کے لیے فائدہ مند ہے جو ملتان روڈ، شالا مار باغ، مغلپورہ اور باغبانپورہ جیسے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور تیسری طرف سپیڈو بس ہے۔ یہ ایسی بس ہے کہ جس کے روٹ ایسے بنائے گئے ہیں کہ مسافروں کو بار بار سپیڈو بس تبدیل کرکے اپنی منزل مقصود تک پہنچنا پڑتا ہے۔ اس کے پیچھے مسافروں کی جیبوں سے زیادہ سے زیادہ پیسے کرائے کی شکل میں نکالنا ہے۔ کوئی بھی لمبا روٹ نہیں ہے جو بہت سے آبادیوں کو گھیرتا ہو۔

ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ برائے نام ہے۔ گنجان آبادیوں کے تناظر میں نہ ہی بسوں کے روٹس کو بڑھایا گیا ہے اور نہ ہی بسوں کی تعداد قابل ستائش ہے۔ اسی طرح نہ میٹرو بس کا روٹ بڑھانے کی کوئی پالیسی بنائی گی اور نہ ہی اورنج لائن ٹرین کے روٹ کو بڑھانے کی۔ حالانکہ ٹھوکرکے بعد یہ ڈیفینس روڈ سے ہوتی ہوئی بآسانی پرانا کاہنہ تک جا سکتی ہے۔ جب پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہو تو لوگ اپنی گاڑیوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں لاہور زہریلے دھویں میں لِبڑ جاتا ہے اور سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔

حکومتِ وقت اگر واقع ہی سموگ کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے لینڈ مافیا اور تاجر مافیا کے عزائم کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا چاہیے۔ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں پر پابندی لگائی جائے۔ آبادی کے تناسب سے ای۔ بسیں چلائی جائیں۔ ملازمین کو ان کی رہائش کے نزدیک پوسٹ کیا جائے۔ بچوں کے سکولوں کے لیے بسیں چلائی جائیں۔ سائیکل کلچر کو فروغ دیا جائے اور یہ تب ہی ہوگا جب دفاتر اور مارکیٹیں ملازمین کے گھروں کے نردیک ہوں گی۔ ڈیزل اور پٹرول پر چلنے والی گاڑیوں کی تیاری بند کر دی جائے اور ای۔ وہیکل کو فروغ دیا جائے۔ پارکس کی جگہ پر فصلیں اُگائی جائیں اور ان فصلوں کو پانی مہیا کرنے کے لیے کھالے پکے نہ بنائے جائیں بلکہ کچے کھالے ہوں اور ان کی وَٹوں پر ٹاہلی کے درخت لگائے جائیں تاکہ فطرت کا حقیقی نظارہ دیکھنے کو ملے اور ماڈل سٹی کی بجائے ماڈل ویلیجز کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ بقول شاعر " خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے"۔

Check Also

Dr. Shoaib Nigrami

By Anwar Ahmad