Khwateen Par Tashadud
خواتین پر تشدد
گذشتہ دنوں ایک غیر سرکاری تنظیم سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آگنائزیشن (SSDO) نے چاروں صوبوں میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، جنسی و جسمانی تشدد، اغوا اور قتل سے متعلق 55 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں عصمت دری کے 7010 کیسز میں سے صرف پنجاب میں 6624 کیسز رونما ہوئے۔ عورتوں کے اغوا کے سب سے زیادہ کیسز سندھ میں ریکارڈ ہوئے۔ غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کے سندھ میں 258، خیبرپختونخواہ میں 129، پنجاب میں 120 اور بلوچستان میں 26 کیسز رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ صوبوں میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں شرح کا وسیع فرق اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں خواتین کے خلاف کم تشدد پایا جاتا ہے بلکہ یہ سماجی بدنامی، خوف اور خاندان والوں کی عدم سرپرستی کی بنا پر رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے ایک منطم نظام تشکیل دینے، پولیس کی خصوصی تربیت، بروقت مقدمات کا اندراج، صنفی بنیادوں پر تشدد کے کیسز کو ٹریک کرنے کے لیے ایک مرکزی قومی ڈیٹا بیس تشکیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
تشدد کیا ہے؟ مختلف ماہرین مثلاً ماہرین نفسیات، ماہرین سماجیات، ماہرین بشریات اور ماہرین قانون و انصاف اپنے اپنے نقطہ نظر سے تشدد کی تعریف کرتے ہیں لیکن ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ تشدد سے مراد وہ حربے ہیں جن کے ذریعے ایک شخص زبردستی غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرے پر زیادتی کرتا ہے۔ یہ تشدد، جسمانی اور نفسیاتی کے ساتھ ساتھ جنسی اور مالی بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد ایک سماجی مسئلہ بن چکا ہے اور حکومتیں اس کی روک تھام کے لیے باقاعدہ قوانین بناتی ہیں اور آگاہی مہم چلاتی ہیں۔
SSDO کی رپورٹ کے اعداد و شمار سے تو یہی اخذ ہوتا ہے کہ پاکستان میں آج اکیسویں صدی میں بھی عورت ذات وہیں کی وہیں رکھی گئی ہے جہاں پر قبل از اسلام تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام سے قبل بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا جاتا تھا جبکہ آج زندہ گاڑنے کی بجائے عورت کا استحصال کرکے پدرانہ سربراہی قائم رکھی جاتی ہے۔ اسے ہوس مٹانے کا ایک آلہ سمجھا جاتا ہے۔ بچہ پیدا کرنے والی مشین گردانا جاتا ہے۔ عورت پر معاشرہ، قانون، والدین، بھائی، بیٹے، رسموں، عزت، عصمت مابی، معاشی، قبر کا عذاب جیسی خوف کی دیواریں بنا کرسے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ اسے منڈی کی زینت بنایا جاتا ہے، اس کی پوری شخصیت کو، اس کی اپنی پسند و ناپسند کو، اس کے مستقبل کو، اس کے حقوق کو پدرانہ معاشرہ کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
کبھی عورت دیوی تھی جبکہ آج پاؤں کی جوتی سمجھی جاتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ دنیا بھر میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً عورت تعداد میں نصف ہونے کے باوجود بے بس، لاچار اور مظلوم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے روسو نے جو کہا تھا کہ "فطرت نے انسان کو آزاد پیدا کیا مگر آج وہ ہر طرف زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے"، صرف آج کی پاکستانی عورت کے لیے ہی کہا تھا۔ اسی طرح سیمون دی بووا نے اپنی کتاب "سیکنڈ سیکس" کا آغاز کہ "عورت اس طرح جنم نہیں لیتی جیسی کہ وہ بنا دی جاتی ہے"، آج کی عورت کی عین درست نشاندہی کرتا ہے۔
مردانہ معاشرہ، خواتین کے لیے تعلیم ونصاب اور تربیت کا ناقص معیار، صبر و شکر، عزت و شرم اور ذلت کے تناظر میں تشدد کو قبول کرنے کی تلقین، مذہبی تعلیم کی خود ساختہ اور غلط تشریح، گھوڑی اور عورت کوڑے کے بغیر نہیں سدھرتے، آٹا گوندھتی ہلتی کیوں ہو، وغیرہ جیسے محاورے اور کہاوتیں، مردوں اور عورتوں کے درمیان طاقت اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم، عدم برداشت، بیروزگاری، غربت اور مردوں کا منشیات کا استعمال وہ چیدہ وجوہات ہیں جو خواتین پر تشدد کو اکساتی ہیں۔
خواتین پر تشدد کا مطلب صرف جسمانی تشدد نہیں بلکہ یہ بہت وسیع ہے اور اس میں جنسی، جذباتی، نفسیاتی تشدد اور مالی بدسلوکی بھی شامل ہے۔ ماہرین نفسیات سمجھتے ہیں کہ ثقافتی اور سماجی رویے پُر تشدد رجحانات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام معاشروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پرورش میں صنفی تقسیم کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ ہرحال میں آنکھیں بند کرکے اپنے والدین کے حکم پر عمل کریں۔ پاکستان میں لڑکی کو شادی کے وقت نصیحت کی جاتی ہے کہ اب صرف اس کا جنازہ ہی اسے سسرال سے نکالے گا۔
اس کے برعکس لڑکوں کی پرورش مختلف طریقے سے کی جاتی ہے۔ ان کی نافرمانی، بغاوت اور جارحیت کو سراہا جاتا ہے اور ایسے مواقع پر لڑکوں کو حالات کا مقابلہ کرنے اور ضرورت پڑنے پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال سے باز نہ آنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ایسا رویہ مردوں میں پرتشدد رجحانات کی پرورش اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں والدین غیرشعوری طور پر اپنے بچوں میں پرتشدد رجحانات کو ابھارتے ہیں۔ ہر گھر میں لڑکوں کو شیر اور لڑکیوں کو گڑیا کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اسی طرح کھلونے خریدتے وقت لڑکوں اور لڑکیوں میں بھی فرق کیا جاتا ہے۔ لڑکے کے کھلونے طاقت کی علامت پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ لڑکی کے کھلونے کمزوری کی علامت پر۔ یہی تفریق اور عدم مساوات تشدد کی جڑیں ہیں۔
گویا خواتین پر تشدد کی پہلی اینٹ ہماری روایات رکھتی ہیں۔ لہٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ خواتین پر تشدد ایک دم پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کی باقاعدہ فصل بوئی گئی تھی جو آج کڑوا پھل دے رہی ہے بالکل جیسے ضیاء الحق نے "اسلامائزیشن" کی فصل افغان جہاد کے نام پر بوئی، آج غیر مسلم تو کیا، خود مسلمان بھی اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جس کی ایک تازہ ترین مثال سندھ کے شہر عمر کوٹ میں ڈاکٹر شاہنواز کا توہین مذہب کی آڑ میں بیہمانہ قتل ہے۔
ستم تو یہ ہے کہ تشدد سے صرف ایک عورت ہی براہ راست متاثر نہیں ہوتی بلکہ اس کے بچے اور خاندان بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اگر گھریلو تشدد اور اس کے اثرات پر توجہ نہ دی جائے تو یہ ایک کے بعد دوسری نسل کو متاثر کر تے ہیں اور اس طرح تشدد کے اثرات نسل در نسل جاری رہ سکتے ہیں۔ آج جب غلاموں اور جانوروں کے حقوق کو تسلیم کیا جا سکتا ہے تو پھر عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے اور ان کے تحفظ میں کوئی ہچکچاہٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی دور ائے نہیں کہ خواتین پر تشدد کا حل کسی ایک فرد، ادارے یا محکمے کی ذمہ داری نہیں بلکہ متعدد اداروں کی مشترکہ کوششوں اور باہمی ربط سے ہی خواتین پر تشدد کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔ ماہر نفسیات، ڈاکٹرز، پولیس، وکلاء، سماجی بہبود کے کارکنان، اساتذہ، امام مسجد اور سول سوسائٹی مل کر گھریلو تشدد سے نمٹنے کی کوششوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام میں درج ذیل تجاویز اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
1۔ تشدد کے شکار افراد اور ان سے وابستہ افراد کے تحفظ کا انتظام کرنا۔ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر شیلٹر ہومز کا قیام۔
2۔ متاثرہ خواتین کو تمام طبی، قانونی، سماجی، معاشی اور نفسیاتی سہولیات ایک ہی چھت کے نیچے فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنا۔
3۔ خواتین کے خلاف تشدد کے تمام چھوٹے اور بڑے واقعات کی باقاعدہ رجسٹریشن کے لیے ایک طریقہ کار قائم کرنا۔
4۔ ڈاکٹر حضرات کو گھریلو تشدد کی شناخت اور رپورٹ کرنے اور مناسب تربیت فراہم کرنے کا پابند بنانا۔
5۔ گھریلو تشدد سے متعلق عام لوگوں کی آگاہی کے لیے سیمینارز، خطبات، مباحثے، ڈرامے اور دستاویزی فلموں کا اہتمام کرنا۔
6۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی پرورش اور تعلیم و نصاب میں فرق کو ختم کرنا۔
7۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین کو یہ باور کرایا جائے کہ مظلوم ظالم سے پہلے پیدا ہوتا ہے جو ظلم اور ظالم دونوں کو پیدا کرتا ہے۔
پنچایتی نظام، روایات، قوانین کے نفاذ، تعلیم و تربیت اور مذہبی رسوم و رواج وغیرہ پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، تب ہی پاکستان میں خواتین پر تشدد کو روکنا ممکن ہوگا۔ راستہ لمبا اور دشوار گزار تو ہے لیکن اگر ہم شروع کریں تو منزل دور نہیں۔
کچھ ہوا تیز ہے، بارش کے ہیں آثار، مگر
مشعلیں ہاتھ میں تھامے ہوئے چلنا ہے ہمیں