Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Junooniyat Aur Adam Bardasht

Junooniyat Aur Adam Bardasht

جنونیت اور عدم برداشت

رواں سال ایک ناقابل توقع ٹرینڈ منظر عام آیا ہے جس میں سوشل میڈیا پر سے بھی توہین مذہب کا مواد تلاش یا گھڑ لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاہنواز اور کوئٹہ کے ایک شخص پر توہین مذہب کے الزامات سوشل میڈیا کی بدولت لگے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ محافظ ہی ملزمان کو قتل کر رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ یہ سب کیا ہے؟ سستی شہرت کا حصول ہے یا راتوں رات "پیر" بننے کا شارٹ کٹ ہے؟ جنت کے لیے جگہ ریزرو کروانے کی ایک خود ساختہ سوچ ہے یا ڈیجٹیل دہشتگردی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر پابندی لگوانے کا ایک نیا طریقہ ہے؟ بہرحال جو بھی ہے، بہت خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین سخت ذہنی دباؤ میں ہیں کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے۔

توہین مذہب کے واقعات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ توہین مذہب کے الزامات پہلے اقلیتوں پر خصوصاً مسیحیوں پر لگتے تھے۔ اسی طرح احمدی کمیونٹی بھی شدید متاثر ہوئی۔ انہیں مذہبی رسومات ادا کرنے سے منع کر دیا گیا اور نقصِ امن کی پاداش میں انہیں قربانی کی رسم ادا کرنے سے روکا گیا۔ جبکہ آج دو سو پچانوے سی کی زد میں کلمہ گو مسلمان بھی تیزی سے آ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ توہین مذہب پرُتشدد ہجوم کو چند منٹوں میں جمع کرنے کا ایک طریقہ کارہے۔

لاہور کے علاقے اچھرہ میں خاتون کے لباس کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام لگا اور چند ہی منٹوں میں مشتعل ہجوم پیدا ہوگیا۔ سوات میں توہین مذہب کے الزام میں ایک سیاح کو پولیس کی گرفت سے چھڑوا کر تھانے سے باہر لے آیا اور تشدد کرکے ہلاک کر دیا۔ رواں ماہ گیارہ ستمبر کو سوشل میڈیا میں ایک وڈیو وائرل ہونے کے نتیجہ میں کوئٹہ میں ایک شخص کو دو سو پچانوے سی کے تحت گرفتار کیا گیا اور ایک پولیس اہلکار نے اسے قتل کر دیا۔ بعدازاں خبریں شائع ہوئیں کہ مقتول کے ورثاء نے پولیس اہلکار کو معاف کر دیا۔ سترہ ستمبر کو صوبہ سندھ کے شہر عمر کوٹ میں ڈاکٹر شاہنواز کو توہین مذہب کے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا اور ایک دن بعد مبینہ پولیس مقابلے میں ان کی ہلاکت کی خبریں آئیں۔ ڈاکٹر شاہنواز پر الزام تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیاپر نبی کریم ﷺ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور ان کی شان میں گستاخی کی۔

ملک میں آج وہ حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ ہر شخص ایک خوف کی فضا میں مبتلا ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر سے دو سو پچانوے سی کے الزامات کے تحت ڈاکٹر شاہنواز کے قتل سے سوشل میڈیا صارفین سخت دباؤ (stress) کا شکار ہیں۔ ہمارا معاشرہ پہلے ہی عدم برداشت اورعدم رواداری کا شکار ہے۔ ظاہر ہے عدم برداشت ہی پیدا ہوگی جب تعصبات ذہن نشین کروانے والی تعلیم دی جائے گی۔ جب خود ساختہ تاریخ پڑھائی جائے گی جس میں جنگوں، معرکوں، قتل و غارت گری کو آباؤ اجداد کے "تاریخی کارنامے" قرار دے کر معصوم اذہان کو آدم بیزار بنایا جائے گا۔ جب عقلیت پسندی اور تخلیقی سوچ کو پروان چڑھنے سے قبل ہی بانجھ کر دیا جائے۔ رہی سہی کسر بیروزگاری، غربت، بجلی بلوں اور مہنگائی نے پوری کر دی ہے۔ ان حالات میں نامحسوس طریقے سے کینسرکی طرح ملک کے عوام میں شدت پسندی جڑیں پکڑ چکی ہے۔

جب معاشرہ نفسیاتی مریض کا روپ دھار جائے تو اپنی نامکمل خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تخریب کا سہارا لیتا ہے۔ خود کو عظیم ثابت کرنے کے لیے جنونیت اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو، میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسی حرکات و جرائم کا ارتکاب کرتا ہے جو غیر انسانی، غیرقانونی، شدت پسندی اور دہشتگردی کے زمرہ میں آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چھوٹا پیر، بڑا پیر، کانواں والی سرکار۔۔ جیسی وڈیوز بھی مذہبی جذبات قائم کرنے میں کمک کا کام دے رہی ہیں۔ جب افغان جہاد کا دور ختم ہوا تو ان کو اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھاکہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ آج ہر طرف خوف کی فضا بھاپنتے ہوئے تو خیال آتا ہے کہ خالی ذہن ہی رہتے تو اچھا تھا!

حکومت نے ایکس پر پابندی تو کب کی لگائی ہوئی ہے اب فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ایپ پر بھی پابندی کی کوشش کر رہی ہے لیکن ابھی دال نہیں گل رہی۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کے بعد سوشل میڈیا یوزرز سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ خود کو توہین مذہب کے الزام سے کس طرح بچایا جائے۔ کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنے بارے سوچ رہا ہے، کوئی اشٹام پر حلفیہ بیان اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر آپ لوڈ کر رہا ہے، کوئی مذہبی پوسٹیں دھڑا دھڑ شئیر کر رہا ہے اور کوئی مذہبی گروپس کو جوائن کرکے مذہب پسند کمنٹس لکھ رہا ہے تاکہ خدانخواستہ کل کو کوئی ھیکر آئی ڈی ھیک کرکے توہین والی پوسٹ شیئر کر دے تو الزام سے بچنے کے لیے اکاؤنٹ کی سابقہ ھسٹری سے اپنی صفائی پیش کر سکے۔ ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کلیسا کا سیاہ دور واپس آ گیا ہے اور ہو سکتا ہے واقعی ہی واپس آ گیا ہو کہ تاریخ خود کو دہراتی جو ہے!

ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی حفاظتی تدابیر کسی کام نہیں آئیں گی۔ وجہ یہ کہ غور و فکر اور تحمل و بردباری کا تو وجود ہی نہیں ہے جو صفائیاں سنی جائیں گی۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو پولیس کی حراست میں پولیس ہی کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے۔ آٹا گوندھتی ہلتی کیوں ہو، کی مانند صفائیاں یا حفاظتی تدابیر کام نہیں دے سکیں گی۔

رواں دنوں ڈاکٹر شاہنواز سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ہماری دانست میں سوشل میڈیا صارفین بھی جذبات میں بہہ کر ہوش کھو بیٹھے ہیں۔ وہ بطور آگاہی کے یہ سب کر رہے ہیں لیکن اس کے منفی اثرات سوشل میڈیا پر نمودار ہوئے ہیں اور خوف کی فضا قائم کر دی گئی ہے۔ اس سے ڈیجیٹل دہشگردی کو سپورٹ ملتی ہے اور صارفین کی سلامتی کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی کا تقاضا کرتی ہے اور یہی بنیادی مقاصد ہیں جن کی وجہ سے توہین مذہب نے سوشل میڈیا کا رخ کر لیا ہے۔

ماہرین یہ تک کہتے ہیں کہ اگر شدت پسندی یا دہشگردی کے واقعات کو میڈیا گھاس نہ ڈالے تو ان واقعات کو پیدا کرنے والے ازخود ڈھے جائیں گے اور کوئی تیسرا طریقہ ڈھونڈنے نکلیں گے۔ لہذا ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ جذبات میں ہوش و حواس بحال رکھیں اور دیکھ بھال کر قدم اٹھائیں کہ بقول شاعر "لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام"۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani