Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Hathiyon Ki Larai Mein Pisti Awam

Hathiyon Ki Larai Mein Pisti Awam

ہاتھیوں کی لڑائی میں پِستی عوام

ن لیگ ایک طرف پی ٹی آئی سے نبرد آزما ہے اور دوسری طرف اسٹیبلیشمنٹ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی اپنی جذباتی طبیعت کی وجہ سے کوئی ایک راستہ اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ کبھی وہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کا دعویٰ کرکے ن لیگ کے پسینے چھڑوا دیتے ہیں اور کبھی اسی اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ٹرم "دی ماسٹر آف یو ٹرن " عین درست استعمال ہوتی رہی ہے۔

اس ساری چپلقش میں معنی خیز بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میسنی بن کر خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہی ہے اور میدان میں براہ راست کودنے سے کنی کترا رہی ہے اور یہی اس کی کامیاب سیاسی پالیسی ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ کی طرح پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہی ہے اور اسکی یہی خاموشی اسٹیبلیمشنٹ کو نامحسوس طریقے سے پسند آ رہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ اسٹیبلیشمنٹ نواز حکومت ہی کرسی پر براجمان ہوتی ہے اور یہی حقیقت لمحہ فکریہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر سیاسی مہرے اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ الیکشن کے نام پر عوام کو مہذبانہ دھوکہ دیاجاتا ہے۔ انتخابات پر عوام کا خوامخواہ اربوں روپیہ ضائع کیا جاتا ہے۔

گذشتہ روز پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کو سیاست کی الف ب سکھاتے ہوئے نصیحت کی کہ عمران خان کو جیل سے چھڑوانے کے لیے قانونی طریقے استعمال کیے جائیں اور قومی اسمبلی میں عوامی مسائل کو دور کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ بلاول کا یہ کہنا بجا ہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ جس قسم کی بازاری زبان اور بیانات جلسے جلوسوں اور پارلیمنٹ میں استعمال کر رہی ہے، اس سے سیاستدانوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست میں گالم گلوچ اور اوچھے ہتھکنڈے سیاستدانوں کے لیے سلو پوائزن ہوتے ہیں جس کا ہمیشہ منفی نتیجہ نکلتا ہے۔ سیاست میں دنگل کی شروعات نواز شریف نے اپنی آئی جے آئی سے کی جب بینظیر کی برہنہ تصاویر ہیلی کاپٹر سے پنجاب بھر میں پھینکی گئیں۔ چمک کی سیاست کا آغاز بھی رائیونڈ سے ہوا۔ کس قدر منافقت کی بات ہے کہ ایک طرف آئی جے آئی یعنی اسلامی جمہوری اتحاد اور دوسری طرف ایک عورت کی نازیبا تصاویر کو انتخابی مہم کے طور پر استعمال کرنا۔ جبکہ اس شروعات کو پاکستان تحریک انصاف نے چند دنوں میں انتہا تک پہنچا دیا۔ اب تو واقعی ہی بلاول کی بات عین درست لگتی ہے کہ سیاست کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے اور نئی نسلیں سیاست میں قدم رکھنے سے گھبرائیں گی۔

عوامی لیڈر کی بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات و فوائد کو نظر انداز کرکے عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے۔ برعکس اس کے، آج سب جماعتیں صرف اپنے مفادات کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ پی ٹی آئی بانی کو آزاد کرانے کے لیے کام کر رہی ہے، ن لیگ اپنی کرسی بچانے کے لیے سارا زور صرف کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی کرسی کا انتظار کر رہی ہے۔ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں گھاس پستی چلی جا رہی ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں، آمدنی سے زائد یوٹیلیٹی بلز نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ آئی ایم ایف دباؤ کے تحت ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، پنش میں تباہ کن اصلاحات وغیرہ جیسے جمہور دشمن کام کرنے میں حکومت معمولی سی بھی دیر نہیں لگاتی۔

ان حالات میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملک میں جمہوریت ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے گا کہ جمہوریت کے لبادے میں سرمایہ دار عوام کا خون تو کیا ہڈیاں بھی نچوڑنے کے در پر ہیں۔ بجلی بلز میں کوئی ریلیف نہیں دیکھا گیا جبکہ عوام سے محبت بھرے بیانات ایسے حکومت دے رہی ہے کہ جیسے "سارے جہاں کا درد ہے ہمارے جگر میں"۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو آئی پی پیز کو آسانی سے رام کیا جا سکتا تھا کہ وہ کپیسٹی چارجز لینا بند کر دیں کیونکہ ان آئی پی پیز کے مالکان کی اکثریت حکومتی نمائندوں ہی کی ہے۔ لیکن نہیں کیونکہ سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی عوامی ریلیف نہیں دے سکتا اور اگر دیتا بھی ہے تو درپردہ جلد یا بدیر اس ریلیف سے دوگنا ریلیف وہ خود وصول کر رہا ہوتا ہے۔ لینن نے ریاست کی تعریف کرتے ہوئے خوب کہا تھا کہ ریاست تشدد کا ایک آلہ یا ہتھیار ہے جسے ایک طبقہ دوسرے طبقے کے خلاف استعمال کرتا ہے اور آج سرمایہ دار طبقہ، مزدور طبقہ کا استحصال کر رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب سیاست نام ہی اسٹیبلمشمنٹ کا ہے، جب سول مارشل لاء ہی عوام کے مقدر میں ہے، جب استحصال ہی لوگوں کا مقدر ہے، جب مہنگائی کی چکی ہی قسمت میں ہے، جب صحت کی بجائے کانگڑی پہلوان بننا ہی نصیب میں ہے، جب ڈگریوں کے باوجود بیروزگاری کی خا ک چھاننا ہی لکھا گیا ہے، جب کرائے کی چھت بھی ہاتھ سے نکل رہی ہو۔۔ تو پھر عوام کدھر جائیں؟ وہ کیسے مسائل کی دلدل سے باہر نکلیں؟ پچھہتر سال تک نہیں خوشحال ہو سکے تو اب اس کی امید کیونکر رکھی جائے؟ حل کیا ہے؟ بہت سے لوگ کہیں گے کہ "حل صرف جماعت اسلامی"۔ لیکن میں اس کا حل پاسپورٹ آفس کے سامنے صبح تین بجے سے شروع ہونے والی لائینوں کی لمبائی میں دیکھتا ہوں۔

ہواؤں سے بھروسہ اٹھ گیا ہے
یہاں سے اب صبا خیمے اٹھا لیں

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal