Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Tabah Kun Awazen

Tabah Kun Awazen

تباہ کن آوازیں

میں کل پڑھ رہا تھا کہ، جیمز ویب سیٹلائٹ ٹیلی سکوپ کو Ariane5راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا ہے۔ جانتے ہو کہ Ariane5راکٹ اپنے لانچ کے وقت، 170 decibelsکی آواز پیدا کرتا ہے۔ یعنی انسان کی طرف سے بنائی گئی، اب تک کی سب سے بلند آواز۔ ایک ہوائی جہاز کے جیٹ انجن کی آواز کو تقریباً 140 ڈیسیبل مانا جاتا ہے، جو تمہارے کانوں کو فوری طور پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سوچو (بلکہ گوگل کر لو) کہ تمہارا جسم کس شدّت کی آواز کو برداشت کر سکتا ہے؟ انسان 0 dB(سماعت کی حد)اور 130 dB(درد کی حد)کے درمیان کی سطح کی آواز برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ انسان کے سننے کی رینج ہے۔

یوں سمجھو کہ ایک ٹرک انجن کی آواز 80 ڈیسیبل تک ہوتی ہے، اور ایک جیٹ انجن کی 130 ڈیسیبل تک۔ یہ آوازیں برداشت کرنے کے قابل ہوتی ہیں، لیکن جیسے جیسے آواز 150 ڈیسیبل سے اوپر جانا شروع ہوتی ہے، جسم پر اس کا اثر ہوتا محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اب سنو، ایک عام راکٹ لانچ ہوتے وقت 165 ڈیسیبل تک کی آواز پیدا کر سکتا ہے، یہ آواز مار تو نہیں سکتی، لیکن انسان کے کانوں کے پردے پھاڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ SaturnVایک امریکی سپر ہیوی لفٹ لانچ وہیکل تھی، جسے NASAنے 1967 اور 1973 کے درمیان استعمال کیا تھا۔

تین مراحل پر مشتمل، مائع ایندھن سے چلنے والا یہ راکٹ، SaturnVچاند کی انسانی تلاش کے لیے اپولو پروگرام کے تحت تیار کیا گیا تھا، اور بعد میں اسکائی لیب کو لانچ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ تمہیں یاد ہو گا کہ، اسکائی لیب امریکہ کا پہلا خلائی اسٹیشن تھا۔ SaturnVراکٹ نے 150 decibels کی آواز کو پیدا کیا۔ لانچ کے وقت اس کی آواز سے پیدا ہونے والی توانائی اس قدر زیادہ تھی کہ، لانچ پیڈ پر کنکریٹ پگھل گیا تھا۔ نقصان سے بچنے کے لیے لانچ پیڈ پر تین لاکھ گیلن پانی گرایا گیا تھا، تاکہ وہ راکٹ کی آواز سے پیدا ہونے والی اینرجی کو جذب کر سکے۔

اور سنو!نیلی وہیل، جس کو زمین پر اب تک کا سب سے بڑا جانور جانا جاتا ہے، اس کے بڑے سائز کے ساتھ ساتھ، حیرت میں ڈالنے کے لیے اس کی آواز بھی ہے۔ نیلی وہیل کی آواز 188 ڈیسیبل تک پہنچتی ہے، گرجنے والے جیٹ انجن کے کان چھیدنے والی، 140 آواز سے بھی زیادہ۔ اس کی آوازیں 1,000 میل (1,600 کلومیٹر) دور تک سنی جا سکتی ہیں۔ یہ بتانے میں بھی حرج نہیں کہ وہیلیں بات چیت کرنے، خوراک تلاش کرنے اور ایک دوسرے کو تلاش کرنے کے لیے شور مچاتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور سماجی رابطوں کے لیے مختلف قسم کی آوازوں کا استعمال کرتی ہیں۔

وہیل کی طرف سے نکالی جانے والی آوازوں کی تین اہم اقسام ہیں کلکس، سیٹیاں اور پلس۔ اگر انسان اس کے پاس کھڑے ہو کر اس کی آواز سنے، تو جسم میں اس قدر وائیبریشن پیدا ہو گی کہ، انسانی جسم گرم ہونا شروع ہو جائے گا۔ ایک اور بات سنو، 20 مئی 1883 کو انڈونیشیا میں کراکاٹوا (Krakatau) آتش فشاں پھٹنے کا حادثہ ہوا۔ اس میں کراکاٹوا جزیرے کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ، اور اس کے آس پاس کے جزیرے تباہ ہو گئے۔ یہ حادثہ ریکارڈ شدہ تاریخ کے سب سے مہلک اور تباہ کن آتش فشاں واقعات میں سے ایک تھا، اور دھماکے اتنے پر زوردار تھے کہ ان کی آوازیں 3,110 کلومیٹر (1,930 میل) دوری پرتھیں، مغربی آسٹریلیا اور ماریشس کے قریب روڈریگس میں 4,800 کلومیٹر (3,000 میل) دور سنی گئیں۔

اس آواز کو دنیا بھر میں 50 مختلف مقامات پر سنا جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اور آواز کی لہر نے دنیا میں سات مرتبہ سفر کیا تھا۔ کم از کم 36,417 اموات اس کےپھٹنے اور اس سے پیدا ہونے والی سونامیوں سے منسوب ہیں۔ تقریبا ََسو میل کے فاصلے پر آواز کی شدّت 172 ڈیسیبل ریکارڈ کی گئی تھی۔ آخر آواز میں ایسا کیا ہے کہ، انسان کو مار ہی ڈالے؟ 200 ڈیسیبل سے اونچی آواز سب سے پہلے انسانی کان کے پردے پھاڑے گی، اور پھر پھیپھڑوں میں embolismپیدا کر دے گی، یعنی آپ کے پھیپھڑوں میں ہوا کے بڑے بڑے بلبلے بن جائیں گے، اور پھیپھڑوں میں ہوا کا دباؤ اتنا بڑھ جائے گا کہ وہ پھٹ جائیں گے۔ دل اور دیگر اعضا کا بھی لگ بھگ یہی حال ہو گا۔

صرف یہی نہیں کہ نقصان پہنچانے والی آوازوں کا ہمیشہ اونچا ہونا ضروری ہے، بلکہ 20 ہرٹز سے نیچے کی آوازیں جو ہم سن بھی نہیں سکتے (انفراسونک آوازیں) کو اگر انسانی جسم پر فوکس کر کے چھوڑا جائے، تو ہماری آنکھوں کے ڈھیلے وائیبریٹ کرنے لگیں گے، ہمیں اُلٹیاں شروع ہو جائیں گی اور جسم میں شدید درد کی تیز لہریں دوڑیں گی۔ سونک اور الٹراسونک ہتھیار، (USW) جو کسی مخالف کو زخمی کرنے یا ناکارہ کرنے کے لیے آواز کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ سونک ہتھیار آواز یا الٹرا ساؤنڈ کی فوکسڈ بیم بناتے ہیں۔ دوسرے آواز کا ایک ایریا فیلڈ تیار کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ ابھی تک فوجی اور پولیس فورس، سونک ہتھیاروں کا صرف محدود استعمال ہی کرتی ہیں۔

غزوہ تبوک جاتے ہوئے، نبی کریم ﷺ ایک علاقے سے گزرے تھے، اور اپنے اصحاب کو وہاں کا پانی پینے سے بھی منع فرما دیا، اور وہاں کی کوئی شئے استعمال کرنے سے بھی۔ یہاں تک کہ جب اصحاب نے بتایا کہ انہوں نے تو آٹا بھی گوندھ لیا ہے، اور پانی کے برتن بھی بھر لیے ہیں، تو نبی ﷺ نے حکم دیا کہ پانی انڈیل دو اور آٹا اونٹوں کو کھلا دو۔ نبی ﷺ نے اپنے چہرے کو بھی ڈھانپ لیا اور سواری کو تیز کر لیا، یہاں تک کہ وہاں سے نکل گئے۔ یہ پہاڑی علاقہ حجر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یونیسکو نے 2008 میں اپنی ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں اس کا نام Hegra Archeological Siteکے نام سے شامل کیا اور اب بھی موجود ہے۔

https://whc.unesco.org/en/list/1293/

اس جگہ کے ماضی کو تلاشتے ہوۓ، مجھے سوره قمر میں لکھا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ قوم ِثمود کی طرف آئے ایک نبی کا نام حضرت صالحؑ تھا۔ اس قوم کواہل ِحجر بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بڑے بڑے پہاڑوں میں اپنے گھر تراشا کرتے تھے۔ اہل ِحجر نے اپنے نبی ؐسے ایک معجزہ مانگا، کہ آپ ہمیں پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی نکال کر دکھائیں، ان کی درخواست پوری ہوئی اور اللہ نے پتھر سے ایک حاملہ اونٹنی معجزاتی طور پر نکال دی، اس پر کچھ لوگ تو ایمان لے آئے، لیکن باقیوں نے پھر بھی نہ مانا۔ پہلے اس اونٹنی کا پانی بند کیا گیا اور پھر ایک دن اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں، اسے قتل کر دیا اور اس کا بچہ چیختا چلاتا چٹانوں میں غائب ہو گیا۔

سوره ھود کی آیت 65 اور 67 میں صاف لکھا ہے کہ، تین دن کے بعد، صبح کے وقت حجر والوں پر الصَّيْحَةُ کا عذاب آیا۔ میں نے یہ گفتگو آواز سے شروع کی تھی۔ راکٹ کی آواز، وہیل کی آواز، زلزلے کی آواز وغیرہ۔ اور جب میں الصَّيْحَةُ کا اردو ترجمہ کرتا ہوں تو جواب آتا ہے "چیخ " اور انگریزی میں کرتا ہوں تو جواب آتا ہے "shout"۔ مطلب میں آواز ہی کی بات کر رہا ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس آواز یعنی الصَّيْحَةُ کا نتیجہ کیا ہوا؟

سوره ھود کی آیت 67 کا آخری حصّہ:" اپنے گھروں میں (مُردہ حالت میں) اوندھے پڑے رہ گئے۔"

Check Also

Artificial Intelligence Aur Jaal Saz

By Mubashir Ali Zaidi