Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Asmano Ke Darwaze (3)

Asmano Ke Darwaze (3)

آسمانوں کے دروازے (3)

ذرا سوچو؟ عبدالرحمٰن۔

یہ فرشتے زمین پر آتے کیسے ہیں؟

یا زمین سے آسمان کی طرف جاتے کیسے ہیں؟

سورۃ المعارج کی چوتھی آیت سے پتا چلتا ہے کہ فرشتے ایسے راستوں کے ذریعے اترتے چڑھتے ہیں کہ جو ایک اور طرح کے راستے ہیں اس آیت کے مطابق یہ وہ راستے ہیں کہ جن سے فرشتہ پچاس ہزار سال کا سفر ایک ہی دن میں طے کر لیتا ہے۔ سورۃ العلق کی دسویں آیت سے آگے دراصل ایک واقعے کا ذکر ہے۔ مکہ میں ایک واقعہ ہوا تھا اور وہ یہ ہے کہ عمر بن حشام یعنی ابوجہل محمد ﷺ کو نماز پڑھنے سے روکتا تھا اور ایک مرتبہ جب آپ ﷺ حرم شریف کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل وہاں سے گزرا تو چلایا کہ اے محمد کیا میں نے تجھے نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا؟

اس پر آپ ﷺ نے بھی اسے کڑا جواب دیا تھا اور اس پر وہ مزید غصے ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد! تم مجھے کس چیز سے ڈرا رہا ہے؟ اس وادی میں سب سے زیادہ حمایتی میرے ہیں۔ ابوجہل کی اسی بات پر سورۃ العلق کی سترویں اور اٹھارویں آیت نازل ہوئی تھی کہ یہ اپنی مجلس والوں کو بلا لے ہم بھی زبانیہ کو بلا لیں گے۔ (زبانیہ عام عربی میں پولیس کو کہتے ہیں جبکہ زبانیہ (ایک بہت ہی پراسرار ٹرم term ہے۔ خوفناک آگ سے بھرا ایک گہرا گڑھا۔)

صحیح مسلم میں ہے کہ ابوجہل نے آگے بڑھ کر محمد الرسول اللہ ﷺ کی گردن پر اپنا پاؤں رکھنا چاہا۔ لیکن وہ اچانک الٹے پاؤں پیچھے ہٹا اور اپنے ہاتھوں سے خود کو بچانے لگا اور جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا ہوا تھا تو اس نے بتایا کہ میرے اور محمد کے درمیان ایک آگ کا ایک گڑھا اور بہت سارے بڑے بڑے پر حائل ہو گئے تھے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتے۔

زبانیہ کے متعلق ایک اشارہ سورۃ المدثر میں بھی ہے۔ ذرا اس سورۃ کی چھبیس اور ستائیس آیت پڑھو۔ ان آیات میں ان کے ہونے کی جگہ کا بھی ذکر ہے کہ جلد ہی ہم ان کو سقر میں ڈالیں گے؟ اور یہ سقر کیا ہے؟ عنقریب ہم اسے سقر میں ڈالیں گے اور تجھے کیا خبر کہ سقر کیا ہے نہ وہ کسی کو زندہ رہنے دیتی ہے اور نہ ہی وہ کسی کو مرنے دیتی ہے۔ اور اس پر انیس محافظ فرشتے ہیں۔

چلو چھوڑو عبدالرحمٰن۔ ڈرنے ڈرانے کی باتیں بس کرتے ہیں۔ اچھے فرشتوں کی بات کرتے ہیں۔

جس کی اللہ پاک نے سورہ نور میں قسم بھی اٹھائی ہے بیت المعمور ساتویں آسمان یعنی غریبہ پر موجود ایک عبادت گاہ جس میں فرشتے عبادت کرتے ہیں۔ بیت المعمور کے معنی ہی آباد اور بھرے ہوئے گھر سے ہے۔ ایک حدیث کے مطابق یہ عبادت کا گھر فرشتوں سے اس طرح بھرا ہوا رہتا ہے کہ روزانہ ستر ہزار فرشتے اس میں عبادت کے لیے آتے ہیں اور پھر دوبارہ قیامت تک ان کی باری نہیں آتی۔

یہی وہ بیعت المعمور ہے جس کی دیوار کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات حضرت ابراہیمؑ کو ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا تھا۔ اس میں عبادت کرتے فرشتوں کے حوالے سے صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہمیں یعنی مسلمانوں کو لوگوں پر تین باتوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئی ہیں۔

اب ایک اور جلیل القدر فرشتے کے متعلق سنو۔ جن کا نام نہ صرف قرآن پاک میں شامل ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو ان کا دشمن ہے وہ خود اللہ کا دشمن ہے۔ حضرت میکائیلؑ جنہیں اللہ نے اپنی مخلوق کو روزی پہنچانے کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔ میکائیلؑ کے بعد ایک اور بڑے فرشتہ جنہیں اللہ نے ایک بہت بڑے کام کے لیے معمول کر رکھا ہے۔ حضرت اسرافیلؑ۔

پھر وہ فرشتہ کے جس کے نام سے جن کے نام سے تقریباً سبھی مسلمان واقف ہیں حضرت جبرائیلؑ جن کا چار مرتبہ قرآن پاک میں نام سے ذکر ہے۔ دو مرتبہ سورہ بقرہ میں ایک ایک بار سورۃ نحل اور سورہ تحریم میں۔ حضرت جبرائیلؑ وہ فرشتے ہیں جنہوں نے کئی انبیاء کے ساتھ کمیونکیٹ کیا ہے اور وہ بڑی طاقت اور قوت والے کام ہیں مثلاً وحی لانا یا کسی قوم پر شدت والا عذاب لانا۔ یہی وہ فرشتے ہیں جو پہلی وحی یعنی اقراء بسم ربی لے کر نازل ہوئے تھے اور یہی وہ فرشتے ہیں جو آپ ﷺ کو اپنے ساتھ معراج کی رات ساتویں آسمان پر اور سدرۃالمنتہیٰ تک لے کر گئے تھے۔

جبرائیلؑ آپ ﷺ کی خدمت میں کبھی تحییب خلیفہ قلبی کی شکل میں آتے ہیں اور کبھی ایک ایسے شخص کی صورت میں جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال انتہائی کالے ہوتے ہیں۔ جبرائیلؑ وہ فرشتے ہیں جنہیں آپ ﷺ نے دو مرتبہ ان کی اصل حالت میں دیکھا ہے۔ ایک مرتبہ مکہ میں اور ایک مرتبہ معراج کے دوران سدرۃالمنتہیٰ کے پاس۔ اس عظیم الشان قوت والا فرشتے کو مکہ میں دیکھنے والے واقعے کے بارے میں نبی محمد ﷺ فرماتے ہیں کہ

میں غارِ حرا میں اعتکاف کے بعد وادی میں اترا اور چلا جا رہا تھا کہ میں نے ایک آواز سنی۔ میں نے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ مجھے پھر وہ آواز سنائی دی اور میں نے پھر دیکھا اور کوئی نظر نہیں آیا۔ جب تیسری مرتبہ آواز سنائی دی تو میں نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا۔ جبرائیلؑ کو زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے پایا۔ میں اُن سے ڈر گیا یہاں تک کہ میں زمین پر گر پڑا اور گھر آنے پر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کر دی۔ اس موقع پر پھر سورہ مدثر کی وہ آیات نازل ہوئیں تھی کہ اے کپڑا اوڑھنے والے۔

عبدالرحمٰن۔

چلو اب کچھ بات کرتے ہیں۔ فرشتو ں کی شکل صورت کے بارے میں۔

زیادہ تر انسان جب فرشتوں کے متعلق سوچتے ہیں تو وہ یہی تصور کرتے ہیں کہ ایک بہت خوبصورت اور معصوم سی صورت ہے اور شاید اسی وجہ سے جب عزیز مصر کی بیوی کی محفل میں آنے والی عورتوں نے یوسفؑ کو دیکھا اور اپنی انگلیاں کاٹ لیں اور ان کی زبان سے نکلا۔ سورۃ یوسف کے مطابق۔ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی بہت بزرگ فرشتہ ہے۔ لیکن تمام فرشتے ایسے نہیں ہیں اگر تم کو منکر نکیر کا حلیہ یاد ہو کہ سیاح رنگت اور نیلی آنکھیں۔ حدیث کے مطابق۔

قرآن پاک میں ایک جگہ فرشتوں کی ایک description بتائی گئی ہے کہ ان کے پر ہوتے ہیں سورہ فاطر کی پہلی آیت میں دو دو تین تین اور چار چار پروں والے فرشتوں کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ اللہ اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے۔

Check Also

Do Shandaar Taqrebaat

By Zulfiqar Ahmed Cheema