Zindagi, Mohabbat Aur Mehnat (1)
زندگی، محبت اور محنت (1)
مشہور ادکار دلیپ کمار کہتے ہیں۔ مغل اعظم فلم میں بادشاہ کا کردار ادا کرنے کے بعد میں اپنے آپ کو سچ مچ کا بادشاہ سمجھنے لگا یہ کیفیت فلم کی تکمیل کے بعد کئی ماہ تک برقرار رہی پھر میں نے ایک سائیکالوجسٹ کی خدمات حاصل کیں کچھ سیشنز لیے اور پھر اس کیفیت سے باہر آیا۔ بادشاہی کی کیفیت کے نشے کا اندازہ ہم اس واقعے سے لگا سکتے ہیں۔
فتح اللہ بیگ مغلیہ سلطنت کے خاص لوگوں میں شامل تھے سرکاری مکان کے ساتھ انہیں دو ہاتھی بھی ملے ہوئے تھے جو ان کی شان و شوکت کو ظاہر کرتے تھے مغلیہ سلطنت ختم ہونے کے بعد اس خاندان کو مشکلات نےگھیر لیا اور جیسے ہم نے دلیپ کمار کی مثال سے سمجھا کہ شاہی خوبو سے نکلنا آسان کام نہیں ہے۔
لیکن عزم جوان ہو تو راستہ نکل ہی آتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے خواب پورے کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔
اسی خاندان کے چشم و چراغ نصرت مرزا کے ساتھ ایک دن گزارنے کا موقع ملا ان کی زندگی کی کہانی طلسم ہو شربا سے کم نہیں۔ اٹھارہ کتابوں کے مصنف ہیں پاکستان کے مشہور اخبارات میں کالم لکھتے ہیں، ماہانہ انٹریکشن (انگلش) اور ماہانہ زاویہ نگاہ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔
میاں نواز شریف صاحب کے دوسرے دور حکومت میں ان کے ایڈوائزر رہے۔ اس سے پہلے صوبائی لیبر منسٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور ابھی بھی 82 سال کی عمر میں ایک بڑی کمپنی رابطہ فورم انٹرنیشنل جو ایک تھنک ٹینک ہے کو لیڈ کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں ثاقب صاحب۔ بے خوفی اور خودداری ہمارے خون میں شامل ہے پاکستان بننے سے پہلے ہم لوگ دلی کے قریب ایک شہر نار نول میں رہتے تھے ہمارے خاندان کی ملکیت میں کافی مکانات تھے اور زمینیں بھی تھیں۔ جس کو انگریزی دور میں سستے داموں بیچ کر گزارا کرتے تھے۔ پاکستان جب بنا تو میری عمر صرف پانچ سال تھی اپنی یاداشتوں کو کریدتے ہوئے بتایا کہ میرے والد صاحب مرزا آل یسن بیگ اپنا سب کچھ وہیں چھوڑ کر صرف فیملی کو لے کر لٹے پٹے پاکستان کے شہر حیدرآباد پہنچے۔
بھوک سے نڈھال یہ خاندان جب سٹیشن پہنچتا ہے تو چاولوں کا لنگر چل رہا ہوتا ہے ان کے والد صاحب کی خودداری گوارا نہیں کرتی کہ وہ اپنی فیملی کو یہ کھانا کھلائیں۔ کہتے ہیں میں مزدوری کرکے کچھ پیسوں کا بندوبست کرتا ہوں جب تک آپ لوگ صبر کریں۔
اس موقع پر ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ انڈیا میں گھر سے نکلتے ہوئے انہوں نے 140 روپے اور کچھ زیور اپنے ساتھ لے لیے تھے اس خاندان کی ابتدائی مشکلات کو کم کرنے میں اس رقم نےاہم کردار ادا کیا اس کے بعد انتھک محنت کی ان کے والد صاحب کہتے تھے زندگی میں دو طرح کی تکلیفیں ہوتی ہیں ایک ڈسپلن اور دوسری پچھتاوے کی ڈسپلن کی تکلیف اونس میں ہوتی ہے اور پچھتاوے کی ٹنوں میں۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کو کون سی تکلیف چاہیے ٹنوں میں یا اونس میں۔
چنانچہ انہوں نے زندگی میں ڈسپلن، مستقل مزاجی اور سخت محنت اپنے والد صاحب سے سیکھی
پسینے کی سیاہی سے جو لکھتے ہیں اپنے ارادوں کو
ان کے مقدر کے صفحے کبھی کورے نہیں ہوتے
ہجرت کے ایام کتنے سخت تھے امرتا پر تیم (مصنفہ) کا لکھا ہوا ایک واقعہ یاد آگیا۔ لکھتی ہیں ہندوستان کی آزادی کا اعلان متوقع تھا اور ہندو بلوائیوں نے مسلمان آبادیوں کا گھیرا کیا ہوا تھا۔ ان کے گھر ایک مسلمان خان ساماں کام کرتے تھے غالبا عبدالقادر ان کا نام تھا۔
صبح کام پر آ رہے تھے تو بلوائیوں کے ہتھے چڑھ گیا ایک شر پسندنے ان کے پیٹ میں چاقو ماردیا امرتا پر تیم اور ان کی فیملی موقع پر پہنچی تو وہ اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے ان سے پوچھا کہ جب حالات اتنے خراب تھے تو آپ کام پر کیوں آئے جواب دیا میری بیوی نے بھی مجھے روکا تھا لیکن میں نے اسے جواب دیا کہ اگر کام پر نہیں گیا تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔
نصرت مرزا کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے جب کلیم جمع کروایا تو دلی میں اپنی شاہانہ رہائش گاہوں کا تذکرہ کیا وہاں موجود آفیسر نے ان کا حلیہ دیکھا تو سادہ سا لباس اور چہرے پر درویشی، آفیسر نے کلیم قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نیرنگی زمانہ شاید اسی کو کہتے ہیں۔
اپنے سکول کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ سکول کی تعلیم کا معیار بہت اعلی تھا لیکن کلاس روم میں ٹاٹ بھی نہیں تھے ننگے فرش پر بیٹھ کر تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ طبیعت میں نزاکت کی وجہ سے چھینکیں آتی رہتی تھی۔
لیڈرشپ کیونکہ ان کے ڈی این اے میں تھی اس لیے ہائی سکول میں کلاس کے مونیٹر بنے نواب یوسف تالپور ان کے دوست اور کلاس فیلو تھے انٹرمیڈیٹ میں مسلم کالج حیدرآباد میں نائب صدر اور جوائنٹ سیکرٹری کے عہدوں پر رہے مسلسل چار سال تک مسلم کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ایک جہد مسلسل
را بندر ناتھ ٹیگور یاد آگئے۔
ڈوبتے ہوئےسورج نے پوچھا
کوئی ہے جو میری جگہ لے
ٹمٹماتے ہوئے دیے نے کہا
ہاں میں کوشش کروں گا
کہتے ہیں ثاقب بھائی میں نے زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا سکول اور کالج لائف میں باکسنگ، کرکٹ، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کے اچھے پلیئرز میں ان کا شمار ہوتا تھا ان کے پسندیدہ مضامین میں میتھ بھی شامل تھا اور انٹرمیڈیٹ کے بعد ہی 93 روپے پچاس پیسے ماہوار پر یہ ریاضی کے ٹیچر منتخب ہو گئے تھے اور یاد رہے کہ یہ 1962 یا 63 کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں 90 روپے میں ایک تولا سونا ملتا تھا۔
اس کہانی کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے آج 2024 کی بات کرتے ہیں پچھلے 17 سال سے وہ دو میگزینز کے چیف ایڈیٹر ہیں اور رابطہ فورم انٹرنیشنل کے نام سے ایک بڑی کمپنی چلا رہے ہیں حیران کن بات بتائی کہ پچھلے 17 سالوں میں کوئی ایک شخص بھی ان کی کمپنی چھوڑ کر نہیں گیا چائے کے ہلکے سے سپ لیتے ہوئے میں نے مسکرا کر پوچھا اس گلیو کا نام بتائیں جس نے ان لوگوں کو جوڑا ہوا ہے۔
ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اس کا نام ہے محبت۔ ہم ایک فیملی کی طرح کام کرتے ہیں۔ عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں کپیسٹی بلڈنگ پر مستقل بنیادوں پر کام ہوتا ہے۔
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
(امجد اسلام امجد)
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن پر ان کی لکھی ہوئی کتاب جوہری نشتر تحقیق میرے سامنے ہے جو اس موضوع پر لکھی جانے والی پاکستان کی پہلی کتاب ہے اس کتاب کو مکمل کرنے میں انہیں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا۔
(جاری ہے)