Uniform Se Commitment
یونیفارم سے کمٹمنٹ
جامشورو سے سیہون شریف جانے والی روڈ، قاتل سڑک کے نام سے معروف ہے 132 کلومیٹر طویل اس روڈ پر 10 سالوں میں تقریباً 10 ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ذرا تصور کریں قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونے والے لوگوں کے گھروں میں ماتم کا کیسا سماں ہوگا۔ انتظار کرتی ہوئی مائیں، آنکھوں میں سپنے سجائے ہوئے سہاگنیں اور باپ کا انتظار کرتے ہوئے معصوم بچے۔ یہ ٹریک پوری دنیا میں قاتل سڑک کے نام سے مشہور تھا۔
2017 کے بعد کہانی تبدیل ہونا شروع ہوتی ہے اور سندھ پولیس کا Accident، Analysis اور روڈ سیفٹی ڈپارٹمنٹ Visionary، پولیس افسرعلی سہاگ کی قیادت میں جنگی بنیادوں پر اس روڈ پر حادثات کی روک تھام کے لیے اپنا کام شروع کرتا ہے۔ آنکھوں میں چمک لیے دادو سے تعلق رکھنے والے آفیسر نے انسانیت کے لیے کام کرنے کا جنون اپنے والدین سے سیکھا۔ ان کے کراچی آفس میں ہونے والی ملاقات کے دوران انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ ان کے دادا بیماری کی وجہ سے اپنے بستر تک محدود ہو گئے اس زمانے میں Pampers کا ٹرینڈ بھی ابھی نہیں آیا تھا۔
علی سہاگ کے والد جو ایک سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے اپنے ہاتھوں سے ان کے دادا کا بول و براز صاف کرتے تھے والدہ بھی تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں دسعت قلب کی مالک اس خاتون نے ہمیشہ اپنے بچوں کو معاف کرنے اور دینے کا درس دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کی والدہ ہر رشتے دار اور اجنبیوں کے کام آنے میں پیش پیش ہوتی تھیں والدین کی دی ہوئی، یہی تربیت ساری زندگی علی صاحب کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آئی۔
بقول میر درد:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیان
علی صاحب کی لیڈرشپ میں سندھ پولیس کی اس ٹیم نے کمال کردیا اور دو سالوں کی محنت کے بعد اکتوبر 2019 میں حادثات میں 92% کمی آئی۔ عالمی سطح پر تسلیم شدہ اس کاوش کو کیسے تکمیل تک پہنچایا۔ میرے اس سوال پر ان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری جو صرف اس وقت کسی شخص کے چہرے پر آتی ہے جب اس نے کوئی خاص ٹاسک سر انجام دیا ہو۔ بتایا کہ ہم نے لوگوں کو Educate کرنے سے اپنا کام شروع کیا گاؤں میں مختلف sessions کیے اور روڈ سیفٹی کے مختلف ٹولز کے بارے میں آگاہی
Provide
کی- اس کے بعد Engineering پہ کام ہوا سڑکوں کی حالت بہتر کی گئی کھڈوں کی مرمت کی گئی خطرناک موروں کو ری ڈیزائن کیا اس کے بعد Enforcement کا نمبر آیا Over-Speeding پر سختی سے کنٹرول کیا گیا اور آخر میں ایمرجنسی رسپانس کا سیکشن قائم کیا رسکی ایریا میں 24 گھنٹے Ambulances اور ایمرجنسی ٹیم کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا۔ علی سہاگ صاحب کی پوری ٹیم اس کار کردگی کے نتیجے میں ستائش کی مستحق ہے۔
دادو میں اپنے سکول کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بیڈمنٹن اور ہاکی کے اچھے کھلاڑی تھے زندگی میں فوکس اور ویژنری ہونے کا سبق اپنے استاد محترم سری چند سے سیکھا زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ایک واقعے کو بتاتے ہیں کہتے ہیں ہم لوگ کراچی شفٹ ہو گئے میں نے ماسٹرز کر لیا ایک دن والد صاحب سے 300 روپے مانگے انھوں نے پوچھا آپ ان پیسوں کا کیا کرو گے؟ اچانک آپ کو پیسوں کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ اور بھی سوالات پوچھے۔ علی صاحب کہتے ہیں میں جوان تھا پڑھا لکھا تھا شرمندگی محسوس کرنے لگا اور اس وقت فیصلہ کیا کہ میں دوبارہ والد صاحب سے پیسے نہیں مانگوں گا اور ایک سکول میں بحیثیت فزیکل ٹرنیر 1700 روپیا ماہانہ پر ملازم ہو گئی یہ 90 کے عشرے کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔
میں نے پوچھا ایک فزیکل ٹرینر ٹیچر سے سینیئر پولیس آفیسر کے Rank تک کیسے پہنچے مسکرا کر جواب دیا ثاقب بھائی، زندگی کا دوسرا ٹرننگ پوائنٹ میری Association ثابت ہوا۔ بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ میں ایک ایوریج سٹوڈنٹ تھا زندگی میں کوئی بڑا مقصد نہیں تھا اپنی ذات پر اعتماد نہیں تھا لیکن میرے سارے دوست پڑھائی میں تیز تھے اور ان میں سے بیشتر سی۔ ایس۔ ایس کی تیاری کر رہے تھے میں بھی ان کے ساتھ وقت گزارتا تھا اور مختلف اسا ٹٹنمٹس بنانے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ پڑھنے کا، کچھ کر دکھانے کا جذبہ بیدار ہونا شروع ہوا۔ مشہور ٹرینز جم رون یاد آگئے انھوں نے کہا۔
"آپ ان پانچ لوگون کا ایوریج ہوتے ہو جن کے ساتھ آپ اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں"
ناکام لوگوں کے ساتھ، مایوس لوگوں کے ساتھ، شکایت کرنے والوں کے ساتھ، سسٹم سے ناراض لوگوں کے ساتھ، وقت گزاریں گے تو آپ بھی ویسے ہی ہو جائیں گے اس کالم کو پڑھنا موقوف کریں اپنے پانچ قریبی دوستوں کی لسٹ بنائیں اور ان میں سے ناکام، مایوس اور انرجی Vampires کے ناموں پر کراس لگائیں اور ان کی جگہ نئے دوست بنائیں۔
علی سہاگ کی کامیاب لوگوں سے محبت رنگ لائی اور اس اوسط طالب علم نے 18,18 گھنٹوں تک محنت کرنے کی عادت ڈالی مقابلے کا امتحان پاس کیا اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کو جوائن کیا۔
ان کی پروفیشنل لائف تھرل سے بھرپور ہے Anti کرپشن ڈپارٹمنٹ میں کام کیا اور موجودہ پوزیشن میں تو گویا امید کے نئے چراغ روشن کیے جا رہے ہیں۔
ایک نئی بات جو اس ملاقات کے دوران معلوم ہوئی وہ یہ ہے کہ سندھ گورنمنٹ نے ایک قانون منظور کیا ہے۔ جس کے تحت 18 سال سے زائد Age کے کسی شخص کی اگر ایکسیڈنٹ میں جان چلی جاتی ہے تو اس کے ورثا، کو گورنمنٹ ایک لاکھ روپے ادا کرتی ہے یہ Process بالکل فری اور سادہ ہے آپ نے صرف بنک کا ایک فارم فل کرنا ہے اور درخواست کو Process کرنا ہے اس سلسلے میں مزید رہنمائی کے لیے آپ اس ای میل ایدریس پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
accidentresearch18@gmail. com
متعلقہ ڈیپارٹمنٹ جس کے انچارج علی سہاگ ہیں۔
(SPAARC) Sindh Police Accidents Analysis & Research Center
میں نے پوچھا کتنے لوگوں کی آپ کی ڈیپارٹمنٹ نے مدد کی کہ یہ claim ان کو مل جائے۔ بتایا کہ ان کی تعداد 200 سے زیادہ ہے۔ ایک خاتون نے انھیں فون کیا اور بتایا کہ ایک بنک کا نمائندہ یہ کلیم منظور کروانے کے لیے اب تک ان سے 7 ہزار روپے لے چکا ہے حیرانی سے فون سنتے ہوئے انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو 100% فری ہے خاتون سے ملاقات کی بنک میں شکایت درج کروائی گئی اور اس بیوہ خاتون کے مسئلے کو حل کیا گیا۔
یاد رکھیں! ہم سب انرجی سے بنے ہیں ہمارا ہر Cell انرجی Produce کر رہا ہے انرجی ٹریول کرتی ہے الفاظ بھی انرجی رکھتے ہیں ہر عمل کی انرجی ہوتی ہے جو اپنا دائرہ پورا کرکے آپ کے پاس واپس آتی ہے۔
(جاری ہے)