Thomas Stanley Ke Principal Aur Rashid Khan
تھامس سٹینلے کے پرنسپل اور راشد خان
یہ جمعے کے دن کا منظر ہے پشاور شہر سے تقریبا 30 کلومیٹر دور پبی (Pabbi) شہر میں الیکٹرانکس کی دکان کے باہر ایک نوجوان لڑکا ٹرک سے مال اتروا کر دکان کے اندر رکھوا رہا ہے۔ سخت گرمی میں پسینے سے شرابور یہ لڑکا کئی سالوں سے یہ کام کر رہا ہے اور یاد رہے جمعےکے دن پبی شہر میں مقامی تعطیل ہوتی ہے۔
اگلے دن دکان کھولنا اس میں خود جھاڑو لگانا اور سارا دن جان توڑ محنت کے ساتھ کام کرنا۔ راشد خان نامی یہ نوجوان لڑکا اس دکان میں ملازم نہیں تھا بلکہ فیملی بزنس میں اپنے بڑے بھائی ممریز خان کے ساتھ کام کرتا تھا یہ نوجوان آج کامیابی سے ملٹی پل بزنسز چلا رہا ہے جس میں موٹر سائیکل شوروم، مارٹ، فاسٹ فوڈ اور دیگر بزنسز شامل ہیں۔
ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ثاقب صاحب میرا بڑا بھائی میرا مینٹور ہے۔ اگر کالج کے سالوں میں میں وہ رگڑا نہیں کھاتا تو وہ کیپیسٹی میرے اندر موجود ہی نہیں ہوتی جو ملٹیپل بزنسز کرنے کے لیے کنجی کی حیثیت رکھتی ہے۔
راشد خان کی کامیابی کی اس سٹوری کو غور سے پڑھیے گا بڑے خواب دیکھنے والے ہر پاکستانی کے لیے اس میں گائیڈ لائن موجود ہے۔
لوئر مڈل کلاس فیملی سے ان کا تعلق ہے والد صاحب ریلوے کے محکمے سے ریٹائر ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے ہی چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اسی کو اپنے کامیابی کا پہلا اصول قرار دیا کہ رزق حلال کی رقم سے کام شروع کیا گیا گویا مضبوط بنیاد رکھی گئی۔
اپنی والدہ کا تذکرہ کیا کہ وہ سخت طبیعت کی تھی ٹائم کی پابندی کرتی تھی اور فضول لوگوں کی صحبت میں ٹائم گزارنے کو سخت ناپسند کرتی تھی کیسا کمال کا ویژن ان کی والدہ کا تھا ایک ہاؤس وائف نے ایسوسی ایشن کی طاقت کو سمجھا۔
راشد خان کی اس بات پر مجھے کراچی میں اپنے ایک سینیئر پولیس آفیسر دوست یاد آگئے، وہ بتاتے ہیں کہ میں پڑھائی میں بہت زیادہ نکما تھا کسی طریقے سے رو پیٹ کر انٹر کر لیا تو اس کے بعد دیکھا کہ ان کے ساتھ کے لوگ سی ایس ایس کرنے کا عزم رکھتے ہیں کہتے ہیں میں خود تو نکما تھا لیکن میرا اٹھنا بیٹھنا قابل لوگوں میں تھا، میں نے تصور کیا کہ یہ لوگ مقابلے کا امتحان پاس کرکے بڑے افسر بن جائیں گے تو کیا میں انہی کے آفس میں درجہ چہارم کا ملازم ہوں گا اس احساس نے ان کے اندر کرنٹ پیدا کیا محنت کی اور آج وہ بھی ایک بڑے مقام پر ہیں۔
راشد خان نے اچھی صحبت کو اپنی کامیابی کا دوسرا اصول بتایا ان کا دستر خوان وسیع ہے کسٹمر کی تواضع چائے، شربت اور کھانے سے کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں افطار اور کھانے کے لنگر کا اہتمام کرتے ہیں موٹر سائیکل شوروم کا کام شروع کیا تو مکینکس کو کھانا کھلانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہر بندے کو ٹائم اور ویلیو دینا ان کا کمال ہے گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ڈسٹرکٹ نوشہرہ میں وہ پہلے کاروباری شخص تھے جس نے مکینکس کو دبئی کے دورے پر بھجوایا ان کے اس عمل نے ان کے بزنس کو نئی بلندیاں عطا کی۔
کہنے لگے ثاقب صاحب میں نے کاروبار میں کسی کے ساتھ جھوٹ نہیں بولا کسی کو دھوکا نہیں دیا کبھی غلط چیز نہیں بیچی۔
سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ان کے مارٹ سے راشن کے تھیلے بنائے جا رہے تھے ان کے منیجر نے بتایا کہ دال کی کوالٹی مناسب نہیں ہے۔ راشد نے کہا اس کو فورا تبدیل کریں اب جس کمپنی سے وہ دال آئی تھی ان کا نمائندہ فون کرکے کہتا ہے کہ آپ اس کو جانے دیں سیلاب زدگان کے پاس راشن جائے گا وہ کون سا شکایت کریں گے ڈسکاؤنٹ دینے کی بات کی لیکن ان کی بات کو سختی سے رد کیا گیا اور ہائی کوالٹی کی دال راشن کے تھیلوں میں ڈالی گئی۔
راشد خان کی اس بات پر تھامس سٹینلے یاد آگئے۔
ارب پتی لوگوں کی عادات پر انہوں نے ایک مشہور کتاب میلینیئر نیکسٹ ڈور لکھی جس میں انہوں نے آٹھ سو سے زیادہ ارب پتی لوگوں پر ریسرچ کے بعد ان کی تیس خوبیاں بیان کی اب دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خوبیوں میں اعلی تعلیم سب سے آخری نمبر پر تھی ذہانت کی بات کریں تو وہ 23ویں نمبر پر تھی یعنی یہ لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ان کا آئی کیو لیول بھی عام لوگوں کے جیسا تھا پھر ان میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ چھوٹے لیول سے بزنس شروع کرکے یہ لوگ ارب پتی بن گئے تھامس سٹینلے نے ان لوگوں کی دوسری سب سے بڑی خوبی یہ بتائی کہ ان کو اپنی فیملی کی سپورٹ تھی یہ فیملی کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے اور نمبر ون خوبی ان لوگوں کی ایمانداری تھی۔
یہی دو بڑی خوبیاں راشد خان کی کامیابی کی بنیاد ہیں فیملی سے مضبوط تعلق اور ایمانداری اور پاکستان جیسی بزنس مارکیٹ میں تو یہ دونوں خوبیاں نایاب ہیں۔
کہتے ہیں ہماری پیمنٹ کبھی ایک دن بھی لیٹ نہیں ہوئی راشد کی ذات میں عاجزی نظر آئی 50 سے زیادہ لوگوں کی ٹیم ان کے پاس ہے ہر بندہ ان سے آ کر مل سکتا ہے اپنے عمل سے انہوں نے ٹیم کو پیغام دیا کہ سویپر بھی میرا بچہ ہے اس طرح ہر کسٹمر بھی ان سے آکر مل سکتا ہے اپنے کاروبار کو ایک سسٹم کے سانچے میں ڈھالا کہ کیش کاؤنٹر کو چھوڑا جائے ایک مضبوط ٹیم بنائی جائے اکاؤنٹس مینجر، پرچیز مینجر، فلور مینجر اور دیگر شعبوں کے لیے لوگ ہائر کیے اور اس کا رزلٹ یہ ہے کہ اب ان کی ٹیم کام کرتی ہے اور یہ ان کے کام کو مانیٹر کرتے رہتے ہیں۔
باقاعدگی سے زکوۃ نکالتے ہیں لوگوں کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں بزنس کے لیے نئے آئیڈیاز سوچتے رہتے ہیں مٹھائی اور بوتیکس کا کام شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں چونکہ ایکشن لینے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے یہ دونوں پروجیکٹس بھی کچھ ہی مہینوں میں شروع کرنے کا ارادہ ہے کراچی میں کنسٹرکشن کی فیلڈ سے وابستہ ایک کنٹریکٹر سے کی گئی گفتگو یاد آگئی، میں نے پوچھا اعلی تعلیم یافتہ لوگ بزنس میں ناکام کیوں ہو جاتے ہیں جواب ملا وہ رسک لینے سے گھبراتے ہیں کاروبار میں کامیابی کے لیے ایکشن لینا ضروری ہے اپنی کامیابی میں راشد خان نے اپنی فیملی کے کنٹری بیوشن کی بات کی اپنی شریک حیات کو اپنے لیے لکی قرار دیا کہ شادی کے چھ ماہ بعد انہوں نے اپنا بزنس شروع کیا جو زبردست طریقے سے کامیاب ہوا بچوں کی مناسب تربیت کا کریڈٹ بھی اپنی وائف کو دیتے ہیں گھر سے ملا ہوا ذہنی سکون انہیں بزنس کو نئی بلندیوں پر لے کر جانے کی قوت فراہم کرتا ہے۔
راشد خان اگلے کچھ سالوں میں اپنی ٹیم کو 200 ممبرز تک بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں کم پرافٹ کے ساتھ زیادہ کسٹمرز کو ڈیل کرنے کے ماڈل پر کام کرتے ہیں۔
میں نے پوچھا نیا بندہ بزنس میں آنے کے لیے کیا کرے جواب دیا سب سے پہلے حوصلہ کرے اللہ پر اس کا توکل ہو جو کام شروع کرنا چاہ رہا ہے پہلے اس کا کچھ تجربہ حاصل کیا جائے کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے دھوکے اور فریب سے بچ کر رہنا چاہیے مارکیٹ میں جمے رہنا چاہیے زکوۃ اور چیریٹی کی صورت میں اللہ تعالی سے مضبوط تعلق بنا کر رکھنا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کامیابی آپ کے قدم نہ چومے۔
راشد خان کا اورا ریڈ کیا تو یلو اور وائٹ کلر کا غلبہ نظر آیا پیلا رنگ ان کے ہائی سیلف اسٹیم کو ظاہر کرتا ہے اور سفید رنگ ان کی روحانی طاقت کی نشانی ہے۔
راشد خان کی اس بات پر کالم کا اختتام کرتے ہیں کہ ہم نے کاروبار میں کبھی جھوٹ نہیں بولا دھوکہ نہیں دیا غلط چیز نہیں بیچی اور ہماری پیمنٹ کبھی ایک دن کے لیے بھی لیٹ نہیں ہوئی۔
خود سے ہی جیتنے کی ضد ہے
مجھے خود کو ہی ہرانا ہے