Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Shehzadi Aur Dhobi

Shehzadi Aur Dhobi

شہزادی اور دھوبی

حضرت نظام الدین صاحب ایک دن قوالی سن رہے تھے۔ آپ کو جوش آیا اور جوش میں رومال ہلا کر فرمایا کہ افسوس ہم دھوبی کے لڑکے کے برابر بھی نہ ہوئے۔ اس وقت تو کسی خادم کو تاب نہ ہوئی کہ دریافت کرے، لیکن دو تین دن کے بعد حضرت امیر خسروؒ نے وقت فرصت میں عرض کیا کہ اس روز جو حضور کی زبان الہام بیان سے یہ الفاظ صادر ہوئے تھے، اس راز سے آگاہ فرمایئے۔ آپ نے فرمایا کہ بادشاہی دھوبی کا لڑکا بن دیکھے بھالے شہزادی پر شیفتہ ہوگیا۔

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد

بسا کین دولت از گفتار خیزد

(عشق صرف دیدار ہی سے پیدا نہیں ہوتا، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ دولت/عشق گفتار سے وجود میں آتا ہے۔)

وہ لڑکا تمام دن شہزادی کے کپڑے دھوتا اور طرح طرح سے ان کو درست کرتا اور غائبانہ اس کے حسن و جمال کی یاد میں نالہ و فریاد کرتا تھا۔

رخنہ ہائے بیعدد ہجر تو دردل ساختہ

عشق چوں زنبور دہر ہر خانہ منزل ساختہ

(تیرے ہجر نے دل میں بہت سے/بے شمار رخنے ڈال دیے، عشق نے، ہر گھر میں ٹھکانہ بنالیا۔)

ان گن چین کریج میں جوپی بچھڑت دین

برہ تنیا ہوئے کے چین چھین گھر لین

چند روز تو یہ راز پوشیدہ رہا۔ آخر طشتتت از بام ہوا۔ لڑکی کے گھر والوں کو یہ بھید کھیل گیا۔

عشق نہ آنست کہ ماند نہاں

گرچہ بود پردہ جہاں در جہاں

(عشق وہ نہیں ہے جو چھپا ہوا ہو اگر چہ وہ جہاں در جہاں پر دے میں ہو۔)

اس کے والدین کو فکر ہوئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ بڑی خرابی کی بات ہے۔ اگر شاہزادی کو خبر ہوگئی تو یہ مارا جائے گا اور اگر یہ چپ چاپ اس غم و حسرت میں مبتلا رہا تو مر جائے گا۔ ع

گویم مشکل دگر نہ گویم مشکل

(اگر میں کہتا ہوں تو مشکل اور اگر نہ کہوں تو مشکل۔)

ایسی جگہ اس نے کمند ڈالی ہے کہ جہاں رسائی دشوار ہے۔ ہم دھوبی وہ شاہ۔ چہ نسبت خال رابا عالم پاک۔ آخر یہ خیال آیا کہ کسی طور سے لڑکے کی طبیعت کو بدلنا اور اس کے دل سے یہ خیال مٹانا چاہیے۔ اس کی ماں نے کیا سوانگ بھرا کہ ایک دن اداس صورت اور غمگین چہرہ بنا کر بیٹے کے پاس جا بیٹھی اور آہیں بھرنے لگی۔ اس نے پوچھا کہ اے اماں خیر تو ہے۔ آج تمہارا کیا حال ہے۔ بہت اصرار کے بعد کہا کہ بیٹا کیا کہوں، کہا نہیں جاتا۔ کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ یہ کہہ کر آنسو بہانے لگی اور بولی کہ جس شہزادی کے تو کپڑے دھویا کرتا تھا، آج اس کا سوم تھا۔ اس نے مضطرب ہو کر تین بار دریافت کیا کہ کیا وہ مر گئی۔ پھر نعرہ مار کر جاں بحق ہوگیا۔

ابتداد ہی میں اٹھ گئے سب یار

عشق کو کون انتہا لایا

اب تو جاتے ہیں میکدہ سے میر

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

سوچا کچھ تھا، ہوگیا کچھ۔ رونا پیٹنا شروع کیا۔ اب کیا ہونا تھا۔ آخر رو دھو کے بیٹھ رہے۔ چوتھے روز دھو بن شہزادی کے کپڑے لے گئی۔ اس نے دیکھ کر کہا، یہ کپڑے آج کس نے دھوئے ہیں۔ پہلے سی صفائی نہیں، وہ تو کچھ محبت کی صفائی معلوم ہوتی تھی۔ یہ بات سن کر دھوبن غمزدہ زار و قطار رونے لگی۔ پہلے تو جھوٹا رونا تھا۔ اب سچ مچ کا رونا ہوگیا۔

جھٹ مٹ کھیلے سچ مچ ہوئے

سچ مچ کھیلے برلا کوئے

شہزادی نے پوچھا کہ کمبخت بتا تو سہی۔ روتی کیوں ہے۔ کچھ منھ سے بول۔ اس نے تمام حال اپنے لخت جگر کی رحلت کا رو رو کے بیان کیا اور کہا کہ وہ نا مراد جو تمہارے کپڑے دھوتا تھا اس طرح جہان سے اٹھ گیا۔ یہ اس کا پیغام ہے۔

اتنا پیغام درد کا کہنا

گر صبا کوئے یار میں گزرے

کون سی رات آن ملئے گے

دن بہت انتظار میں گزرے

شہزادی بولی کہ اچھی دھوبن ہم کو بھی اپنے لڑکے کی قبر دکھلا دے۔

اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی

مارا خراب کردی و خود مبتلا شدی

(اے روشنی طبع تو میرے لیے مصیبت بن گئی ہے، تو نے ہمیں تو خراب کردیا اور خود مصیبت میں پھنس گئی۔)

یہ کہہ کر کھڑی ہوگئی اور دھوبن کو ساتھ لے قبرستان کی طرف روانہ ہوئی۔

وہ چلا جو آتا ہے دوستو ذرا اس سے بچتے رہا کرو

کیا قتل جس نے نظیر کو یہ وہی تو خانہ خراب ہے

مرے پیچھے مت ملو کہے کبیرا رام

لوہا ماٹی ہوگیا پھر پارس کس کام کا

چلتے چلتے قبر پر پہنچی اور اس کے نہایت درد و حسرت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا۔ فوراً قبر شق ہوگئی۔ شہزادی نے کہا۔

شق جا بجا ہے آہ یہ کس کا مزار ہے

شاید کہ اس میں دفن دل بیقرار ہے

پھر بیتاب ہو کر شہزادی اسی قبر میں سماگئی۔

اس چمن کی سیر میں آیا رپیویں مل کے مل

کیا بنائے صانع قدرت نے رنگین گل کے نکل

یہ نہ وہ دریا کہ جس سے گزرے پل باندھ کر

موج چشم عاشقاں دے توڑپل میں پل کے پل

ایک شور مچ گیا۔ بادشاہ کو خبر ہوئی وہ بھی آیا۔ قبر کھودی گئی دیکھا کہ جسم ایک ہے اور سر دو۔

نکلے باہر والے موئے نکلے

دونوں دست و بغل ہوئے نکلے

ربط چسپاں بہم ہو یدا تھا

مر گئے پھر بھی شوق پیدا تھا

ایک کا ہاتھ ایک کے بالیں

ایک کی لب سے ایک کو تسکیں

جو نظر ان کو آن کرتے تھے

ایک قالب گمان کرتے تھے

بعد اس قصہ کے سلطان جی نے فرمایا کہ میاں ایسا عشق ہم کو نہ مرشد سے ہوا، نہ رسول ﷺ سے، نہ خدا سے ورنہ ہم کو بھی وصل نصیب ہو جاتا۔

یہ کہانی مشہور کتاب "تذکرۂ غوثیہ" جس کے مصنف سید غوث علی شاہ صاحب ہیں، وہاں سے منتخب کی گئی ہے۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Sarak, Sawari Aur Be Dharak Yaari (2)

By Maaz Bin Mahmood