Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Saqib/
  4. Muntaq Uttair Se Intikhab

Muntaq Uttair Se Intikhab

منطق الطیر سے انتخاب

فارسی علم و ادب میں جس قدر کتابیں تصوف کے لیے موجود ہیں ان میں حکیم سنائی کا حدیقہ، مولانا روم کی مثنوی اور خواجہ عطار کی منطق الطیر تصوف کی بہترین کتابیں شمار کی جاتی ہیں۔ خواجہ فرید الدین عطار مشہور صوفی بزرگ ہیں اور ان کی کتاب منطق الطیر سے کچھ منتخب حکایات آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

(1)

ایک ڈاکو نے ایک تاجر کو لوٹ لیا اور اس کے ہاتھ باندھ کر اپنے گھر لے گیا وہ گھر میں گیا تاکہ تلوار لا کر اس کی گردن مارے۔ اس وقت اس کی بیوی نے قیدی کو روٹی کا ٹکڑا دے دیا جب وہ شخص تلوار لے کر آیا تو اس وقت اس بیچارے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا دیکھا اس نے کہا یہ روٹی تجھے کس نے دی ہے اس قیدی نے جواب دیا کہ یہ روٹی تیری بیوی نے دی ہے۔ اس شخص نے یہ جواب سنا تو کہا اب تیرا قتل کرنا مجھ پر حرام ہوگیا کیونکہ جس شخص نے ہماری روٹی توڑی اس کی طرف ہاتھ تلوار نہیں لے جا سکتا۔

جس نے ہماری روٹی کھائی اس سے ہمیں اپنی جان بھی دریغ نہیں۔ اب میں اس اس کا خون کیسے بہا سکتا ہوں۔

اے میرے پیدا کرنے والے جب سے کہ میں پیدا ہوا ہوں تیرے دسترخوان پر تیرا دیا ہوا رزق کھا رہا ہوں جب کہ کوئی شخص کسی کی روٹی کھاتا ہے تو وہ اس سے وفاداری کرتا ہے اے خدا تیری سخاوتوں کے ہزاروں سمندر موجیں مار رہے ہیں اور میں نے تیری بے شمار روٹیاں کھائی ہیں اے تمام عالموں کے مالک میں عاجز ہوں میں خون میں غرق ہوں اور خشکی پر کشتی چلا رہا ہوں میری مدد کر میری دعاؤں کو سن۔

میں مکھی کی طرح اپنا سر کب تک پیٹتا رہوں۔ اے گناہوں کو بخشنے والے میرے عذر اور معذرت بھی سن لے۔ میں تو جل ہی رہا ہوں تو مجھے کس لیے جلاتا ہے۔ میرے خون میں شرمندگی اور خجالت کی وجہ سے جوش آ جاتا ہے میں اب تک بہت نامردی اور کم ہمتی سے کام لیتا رہا ہوں۔ میں نے اپنی غفلت اور گمراہی کی وجہ سے سینکڑوں گناہ کیے لیکن تو نے اس کے بدلے ہزاروں رحمتیں کیں۔ اے بادشاہ مجھ غریب کو مت پکڑ۔۔

(2)

ایک شخص بہت پارسا اور نیک تھا ایک رات اس نے خواب میں سلطان محمود کو دیکھا اس نے پوچھا کہ اے بلند و مرتبہ والے بادشاہ اب تو کس طرح ہے سلطان محمود غزنوی نے جواب دیا کہ اے شخص ان باتوں سے مجھے ہلاک مت کر تو خاموش ہو جا اس جگہ بادشاہوں کا حال بہت برا ہے میں بادشاہت کی سزا بھگت رہا ہوں بس بادشاہت کرنا صرف خدا کا ہی حق ہے خدا دنیا کا بادشاہ ہے اور بادشاہت اسی کے لیے مناسب ہے جب یہاں میں نے اپنی عاجزی اور پریشانی دیکھی تو اب مجھے اپنی بادشاہت سے شرم آتی ہے اگر تو چاہے تو مجھے پریشان حال کہہ کر خطاب کر۔ لیکن سلطان خدا ہی ہے تو مجھے سلطان مت کہہ بلکہ بادشاہت کے قابل تو خدا ہی ہے۔ میں اس سے کئی بہتر حال میں ہوتا اگر دنیا میں مجھے فقیر بنا دیا جاتا۔ اے کاش میرا کوئی مرتبہ اور عزت نہ ہوتی اور بادشاہ ہونے کی بجائے میں فقیر اور خوشہ چین ہوتا اب مجھے اس مصیبت سے باہر نکالنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ میرے ایک ایک خون کا حساب مجھ سے طلب کیا جا رہا ہے خدا کرے کہ اس ہما کے بازو سوکھ جائیں کہ جس کے سائے کی وجہ سے میں بادشاہ بن گیا تھا۔

(3)

کہتے ہیں کہ جب یوسفؑ کو فروخت کیا گیا تو مصر کے لوگ آپ کے عشق میں جل رہے تھے کیونکہ آپ کے بہت سے خریدار پیدا ہو گئے تھے اس لیے آپ کی قیمت آپ کے وزن جتنا پانچ گنا مشک مقرر ہوئی ایک بوڑھی عورت کو بھی آپ کا شوق تھا اس نے چند رسیاں بٹی تھیں وہ لوگوں کے مجمع میں چلاتی ہوئی آئی اور کہا کہ اے دلال جو کنعان کے غلام کو فروخت کر رہا ہے میں اس لڑکے کی آرزو میں دیوانی ہو رہی ہوں اور اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے میں نے چند رسیاں بٹی ہیں یہ رسیاں مجھ سے لے لے اور اس لڑکے کو میرے ہاتھ بیچ ڈال اور ایک لفظ بولے بغیر اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے۔

وہ شخص ہنسنے لگا اور کہا کہ اے بڑھیا یہ قیمتی موتی تیرے لائق نہیں ہے اس کی قیمت سو خزانے ہیں تو اور تیری رسیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔

مجھے یقین تھا کہ اس لڑکے کو کوئی اس ارزاں قیمت میں فروخت نہیں کرے گا لیکن میرے لیے یہی کافی ہے کہ تیرے تمام دشمن اور دوست کہیں گے کہ یہ بڑھیا بھی یوسف کے خریداروں میں ہے۔

جس دل کو بلند ہمتی مل گئی گویا اسے ایک ملک بغیر کسی احسان کے مل گیا یہ ہمت کی وجہ سے تھا کہ اس بلند ومرتبہ بادشاہ نے اپنی بادشاہت میں آگ لگا دی جب ایک اور بادشاہ نے اسے نقصان ہوتے دیکھا تو اس نے ہزاروں ملک خرید لیے کیونکہ اب اس کی ہمت پاک بازی کی طرف راغب تھی اس لیے تمام دنیا بیزار ہوگئی جب ہمت کی آنکھ سورج کو دیکھنے کے قابل ہو جاتی ہے تو پھر وہ زروں کے ساتھ نہیں بیٹھتی۔

(4)

سلطان محمود بادشاہوں کی شمع جب غزنی سے ہندوؤں سے جنگ کرنے کے واسطے روانہ ہوا ہے اس نے ہندوؤں کے لشکر کا بہت بڑا مجمع دیکھا اور اس فوج کی کثرت کو دیکھ کر اس کو بہت فکر ہوئی اس دن اس عادل بادشاہ نے نظر مانی کہ اگر میں اس لشکرپر فتح حاصل کر لوں تو جو مال غنیمت بھی اس جگہ سے ملے گا وہ سب کا سب غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کروں گا آخر کار جب سلطان محمود کو فتح حاصل ہوگئی اس نے بہت مال و دولت حاصل کیا اور اپنی فوج کے ہمراہ وآپس آیا اس مال غنیمت کا یہ حصہ خیال سے باہر تھا اور اس کے متعلق سینکڑوں عقلمند اور حکیم بھی اندازہ نہیں کر سکتے تھے کہ وہ مال کتنا ہے۔

اب جب انہیں اس قدر بے شمار لاتعداد مال غنیمت مل گیا تو کمبخت لشکر والوں کے دل میں فتور آگیا سلطان محمود نے ہر ایک سے کہا کہ اس مال غنیمت کو فقیروں میں تقسیم کر دو کیونکہ میں نے شروع ہی میں خدا سے نظر مانی تھی اور اب تاکہ میں اپنے عہد کو وفا کروں۔ جواب دیا کہ اتنا مال و دولت بھلا ہم فقیروں اور بے خبر لوگوں کو کیسے دے سکتے ہیں یہ مال سپاہیوں کو دے دے ورنہ یہ لوگ تیرے خلاف دلوں میں کینہ رکھیں گے یا اس کو اپنے خزانے میں جمع کرنے کا حکم دے۔

بادشاہ اسی فکر میں پڑا رہا اور ان باتوں کے متعلق سوچتا رہا ایک شخص ابو الحسین بہت عقلمند تھا جو بہت نیک اور دیوانہ تھا وہ سپاہیوں کے قریب سے جا رہا تھا بادشاہ نے اسے دور سے جاتے ہوئے دیکھا بادشاہ نے کہا کہ میں اس معاملے کا اختیار اس دیوانے کو دیتا ہوں میں اس سے پوچھتا ہوں وہ جو کچھ کہے گا میں وہی کروں گا یہ شخص کیونکہ بادشاہ اور سپاہیوں کی پرواہ نہیں کرتا تھا اس لیے اس معاملے میں جو کچھ کہے گا بالکل بے غرض ہوگا۔

سلطان محمود نے اس دیوانے کو بلایا اور پوشیدہ طور پر اس کو سارا معاملہ سمجھا دیا اس عاشق خدا دیوانے نے کہا اے بادشاہ کیونکہ یہ کام تجھے اس جگہ پہنچ کر یاد آیا ہے اب اگر آئندہ تجھے کوئی کام نہیں پڑے گا تو اس معاملے سے متعلق ایک جو کےبرابر بھی فکر مت کر اور اگر آئندہ تیرا اس خدا سے کام پڑنے والا ہے تو اس معاملے میں دو جوؤں کے برابر بھی کمی مت کر۔ خدا نے جب تجھے فتح عطا کی اور تیرا کام درست کر دیا۔ اس نے یہ کام اپنا سمجھ کر کیا تیرا کام نہیں کیا آخر کار محمود نے یہ تمام مال غنیمت لٹا دیا اور محمود بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔

سب سے پہلے اپنی برائی دور کر اور پھر خدا کے عشق میں خوش رہ۔ تو دوسروں کے عیب دیکھنے میں بال کی کھال نکالتا ہے اور جب تو اپنے عیب دیکھتا ہے تو اندھا ہو جاتا ہے۔

Check Also

Feminism Aur Hamari Jameaat

By Asad Ur Rehman