Khwab, Raaz, Roshni Aur Rasta (1)
خواب، راز، روشنی اور راستہ (1)
امریکہ میں جن ٹی وی شوز نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے ان میں 60-1954 کے دوران دکھایا جانے والا دی آئیڈیل ڈیڈ ٹی وی شو ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ جب یہ شو اپنی مقبولیت کی انتہا پر ہوتا ہے تو ایک دن ڈنر کے وقت بوسٹن شہر میں ایک اپارٹمنٹ کے دروازے کی گھنٹی بجتی ہے فیملی کا ایک شخص دروازہ کھولتا ہے تو ناقابل یقین منظر دیکھتا ہے اس مشہور ٹی وی شو کا ہیرو ان کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے حیرت اور خوشی کے ساتھ اسے ویلکم کہا جاتا ہے ٹی وی شو کا ہیرو اس فیملی کے سربراہ سے جو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کر رہا ہوتا ہے اکیلے میں بات کرنے کی فرمائش کرتا ہے اور تنہائی میں ہوئی اس ملاقات میں اس سے ایک فیور مانگتا ہے۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ ٹی وی شو کے ہیرو نے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں جھگڑا کرتے ہوئے ویٹر کو تھپڑ مار دیا تھا اور پولیس مین اس واقعے کا عینی شاید تھا۔
آفر کی جاتی ہے کہ اگر آپ عدالت میں گواہی دو کہ میں نے ویٹر کو تھپڑ نہیں مارا تھا تو اس کے عوض ایک بڑی رقم آپ کو ادا کی جائے گی پولیس مین انکار کر دیتا ہے ٹی وی شو کا ہیرو حیرانی اور غصے سے کہتا ہے کہ میں جو رقم آپ کو دے رہا ہوں وہ آپ کی کئی سال کی تنخواہ سے زیادہ ہے تو انکار کی کیا وجہ ہے۔
پولیس مین مسکرا کر کہتا ہے دراصل میں ہر روز شیو کرتا ہوں اور اس دوران اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوں اگر میں نے یہ پیسے لے لیے تو میں اپنے آپ سے آنکھیں نہیں ملا سکوں گا۔
اپنی آنکھوں میں جھانک کر خود سے سوال کرنا خاص لوگوں کا شیوہ ہے۔
ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر طہ صابری سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی سکول اور کالج لائف میں ٹاپر تھے گھر کا ماحول تھوڑا سا مشکل تھا اس لیے نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہے لیکن ان مشکلات کے باوجود اللہ تعالی نے بے شمار کامیابیاں عطا فرمائیں۔
آغا خان میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بن رہے تھے ایک شاندار مستقبل سامنے تھا لیکن جب اپنے آپ سے گفتگو کرتے تو محسوس ہوتا کہ زندگی اپنی ذات سے بڑھ کر کچھ کرنے کا نام ہے اپنی تلاش جاری رہتی ہے
ذہنی سکون کا راز ہے مقصدیت میں
خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کی کوشش
راستے میں مشکلات بھی آئیں گی ضرور
حوصلہ بلند رکھنا ہے ہر پل
یاد رکھو، مقصدیت کی روشنی ہے زندگی کا اصل۔
ایم بی بی ایس کرنے کے بعد فل برائٹ سکالرشپ پر امریکہ سے گلوبل مینٹل ہیلتھ میں ماسٹرز کر لیتے ہیں قدرت ایک بڑے کام کے لیے ان کو تیار کر رہی تھی، ماسٹرز کے دوران امریکی معاشرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنی زندگی مینٹل ہیلتھ کی آگاہی کو نیکسٹ لیول پر لے کر جانے کے لیے وقف کر دی۔
ڈاکٹر طہ صابری نے دوران گفتگو بتایا کہ امریکہ میں اینٹی ڈپریشن کی دوائیاں اتنی زیادہ مقدار میں کھائی جاتی ہیں کہ وہاں کے سمندروں اور جھیلوں میں موجود مچھلیوں کی کثیر تعداد سست پڑ گئی ہے تو پھر انسانوں کا حال ہم خود سمجھ سکتے ہیں جو ان دوائیوں کو ڈائریکٹ استعمال کرتے ہیں۔
انگلینڈ میں کی جانے والی ایک ریسرچ میں پتہ چلا کہ ذہنی صحت سے متاثرہ مریضوں کو 70 فیصد تک دوائیاں خواہ مخواہ دی جا رہی ہیں پاکستان میں حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب مینٹل ہیلتھ کی تعریف ایک نئے زاویے سے کرنا چاہتے ہیں کہ اس بیماری کو جڑ سے ختم کیا جائے گفتگو کے دوران بتایا کہ ثاقب صاحب بچے کی زندگی کے پہلے ایک ہزار دنوں میں اس کی شخصیت کے بیشتر زاویے ترتیب پاتے ہیں اس میں ماں کے پیٹ میں گزارے گئے نو ماہ اور بچے کی دنیا میں آنے کے بعد پہلے دو سال شامل ہیں ڈاکٹر طہ کی اس بات پر یورپ میں کی گئی ایک ریسرچ یاد آگئی۔
دوران حمل عورتوں پر تجربات کیے گئے تو معلوم ہوا پیٹ میں بچہ کبھی کوئی خواب دیکھ رہا ہے کبھی خوش ہے کبھی غمگین ہے ماں کی ہر گہری سوچ اور جذبات کا اس پر اثر ہوتا ہے۔ یعنی دوران حمل ماں پریشان رہے گی گالیاں سنے گی ناکافی خوراک کا سامنا کرے گی سخت مشقت والے ذہنی اور جسمانی کام کرے گی اسے نظر انداز کیا جائے گا جب جیب میں پیسے نہیں ہوں گے تو ان تمام چیزوں کا براہ راست اثر ہونے والے بچے پر پڑے گا اور پیدائش کے ساتھ ہی وہ مختلف امراض کا شکار ہوگا۔
پیدائش کے بعد اگر بچے کو مناسب خوراک نہ ملے تو اس کی ذہنی نشوو نما نہیں ہو پاتی اس کی سوچ سست ہو جاتی ہے ایسے بچے سکول میں تو ناکام ہوتے ہی ہیں عملی زندگی میں بھی بنیادی درجہ چہارم کی جاب سے زیادہ بڑا کام نہیں کر پاتے اور المیےکی بات یہ ہے کہ ایک بار بچپن میں یہ نشوونما نہ ہو پائی تو پھر باقی ساری زندگی اسی دماغی صلاحیت کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔
کہیں گم ہوگئی ہیں راحتیں
اور دل خوشی سے دور ہے
جس کو ہم نے زندگی سمجھا
وہ ایک درد بھرپور ہے
(حبیب جالب)
ڈاکٹر طہ تسکین کے نام سے قائم کردہ ایک ادارے کے بانی ممبران میں شامل ہیں اس ادارے کے قیام کی کہانی بھی دلچسپ ہے مینٹل ہیلتھ پر ڈاکٹر صاحب کے کالم مختلف پلیٹ فارمز پر چھپتے رہتے تھے ایسے ہی ایک کالم کو پڑھ کر عرفان مصطفی صاحب ان سے رابطہ کرتے ہیں اور ان دونوں کی جوڑی مل کر اس ادارے کو نئی منزلوں کی طرف گامزن کرتی ہے تحریر کی طاقت کی شاندار مثال ہے۔
قلم گائید کے منشا جہان نم
قلم نے کہا دنیا کا بادشاہ میں ہوں
غربت کا شکار عبداللہ (فرضی نام) اپنی زندگی بہت مشکل سے گزار رہا تھا چھوٹے بچے، بیمار والدین، شادی کی منتظر جوان بہنیں اور وہ خود مختلف بیماریوں کا شکار ایک فیکٹری میں معمولی ملازمت، اس کی زندگی ہر روز ایک نیا چیلنج اس کے سامنے لے کر آتی۔
حالات کے جبر سے گھبرا کر عبداللہ خودکشی کا خوفناک فیصلہ کر لیتا ہے اور کمرے میں بند ہو کر اپنے آپ کو پنکھے کے ساتھ لٹکا لیتا ہے اس کی قسمت اچھی ہوتی ہے بروقت کمرے کا دروازہ توڑ کر اسے رسی کے پھندے سے نکالا جاتا ہے طبی امداد ملتی ہے اور اس کا سانس بحال ہو جاتا ہے لیکن مقامی پولیس کو خبر ہوتی ہے اور وہ عبداللہ کو گرفتار کرکے تھانے لے جاتی ہے۔
عبداللہ کے پریشان حال فیملی ممبرز سکول کے ہیڈ ماسٹر کو لے کر تھانے پہنچتے ہیں اور تھانیدار سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے بندے نے کون سا جرم کیا ہے نیک شہرت رکھنے والا تھانیدار افسردگی سے کہتا ہے کہ میں آپ کا دکھ محسوس کر سکتا ہوں لیکن میں قانون کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ قانون کے سیکشن 325 کے تحت اب عبداللہ کو ایک سال تک قید کی سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے۔
جی ہاں محترم دوستو! انگریزوں کے دور میں بنایا گیا یہ قانون اب تک پاکستان میں قائم تھا اور خود کشی کی ناکام کوشش کرنے والوں سے ہمدردی کرنے کی جگہ انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر طہ نے بتایا کہ اس قانون کو تبدیل کروانے کے لیے تسکین کے پلیٹ فارم سے سخت جدوجہد کی گئی اور دو سال پہلے قومی اسمبلی میں اس قانون میں ترمیم کی قرارداد پیش کی گئی جسے منظور کیا گیا مینٹل ہیلتھ پالیسی میں ریفارمز لانا تسکین کے بنیادی ایجنڈے میں شامل ہے
ڈاکٹر صاحب کی ذات میں سادگی اور عاجزی نظر آئی، بقول شاہ حسین۔۔
پاویں گا دیدار صاحب دا
ہور وی نیواں ہوئے فقیرا
ہور بھی نیوا ہوئے
ٹوپی میلی صابن تھوڑا بہہ کنارے دھوئے
مینی ڈھگی نام سائیں دا اندر بہہ کر چوئے
اچھل ندیاں تارو ہوئیاں کنڈ ھے رہی کھلوائے
تے حسین فقیر سائیں دا ہونی ہوے سو ہوے
اپنے مالک کا فیض پائے گا اے درویش عجز میں اضافہ کر
میلی ٹوپی سر میں (سمائی خودی) کو دھونے کے لیے صابن (ایک عمر) کم ہے۔ اسے کونے میں بیٹھ کر دھونا پڑے گا
رب کا ذکر چھوٹے سینگوں والی گائے کی طرح ہے اسے تنہائی میں آکر دھو لے
چڑھے ہوئے دریا گہرے ہو گئے ہیں تو کنارے پر کھڑی رہ گئی ہے۔
اپنے رب کا سر مست حسین کہتا ہے جو ہونا ہے ہو کر رہےگا۔
جاری ہے۔۔