1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Saqib/
  4. Kashful Mahjoob Se Intikhab

Kashful Mahjoob Se Intikhab

کشف المحجوب سے انتخاب

پچھلے دنوں کراچی کے کتاب میلے میں کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی مشہور کتاب کشف المحجوب میرے ہاتھ میں تھی۔ ایک دو صفات پلٹنے کے بعد میں نے کتاب کو واپس رکھ دیا بک سٹال پر موجود ایک معزز شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ یہ کتاب کیوں نہیں لے رہے؟ میں نے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا اور انہیں بتایا کہ اتنی بڑی کتاب کو سمجھنا میرے جیسے طالب علم کی بساط سے باہر ہے انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا یہ کتاب آپ جیسے لوگوں کے لیے ہی آسان زبان میں ڈاکٹر اظہر وحید صاحب نے ترجمے کی صورت میں پیش کی ہے۔ ان کے اصرار پر میں نے کتاب لے لی۔ ترجمہ کمال کا ہے جس پر ڈاکٹر صاحب جو واصف علی واصف کے شاگرد ہیں مبارکباد کے مستحق ہیں۔

میں پچھلے ایک مہینے سے تھوڑا تھوڑا کرکے اس کتاب سے نوٹس بنا رہا ہوں ایک ہزار سال قدیم اس مستند دستویز سے کچھ چیدہ چیدہ نکات آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں"جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو تو وہ کشف المحجوب کا مطالعہ کرے اسے مرشد مل جائے گا"۔

کتاب کا ذکر ہو اور صاحب کتاب کا تذکرہ نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ اب ہم صاحب تصنیف کا اجمالی تذکرہ کرتے ہیں تاکہ ان کے ذکر سے ان کی شخصیت کے جمال کا سورج ہمارے باطن میں ضیا پوشی کرے۔ حضرت علی ہجویری، اکتوبر 1009 میں افغانستان کے شہر غزنی میں پیدا ہوئے یہ علم و فضل میں یکتا، یگانا اور نادرروزگار، تبلیغ اسلام کی غرض سے اپنے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن الختلی کے حکم پر 1039 میں لاہور تشریف لائے اور تاحال یہیں مقیم ہیں۔

لاہور کی فضاؤں کو ناز کرنا چاہیے کہ کشف المحجوب لاہور ہی میں تحریر ہوئی۔

اس وقت لاہور اگرچہ سلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر پے در پہ حملوں کے نتیجے میں مفتوح حالت میں فاتح کے قدموں میں گر چکا تھا لیکن یہاں کے باشندے اپنے فاتحین سے کبیدہ خاطر تھے ان کے دلوں کی تسخیر ابھی باقی تھی یہ کام ظاہر ہے اہل ظاہر کے بس کا نہ تھا۔

چنانچہ اقلیم باطن سے باطن کی دنیا کا یہ شہسوار پاپیادہ آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اہل لاہور کے دلوں کو یوں فتح کر لیا کہ اہل ہند اپنے اس فاتح کی بے پیاں جودو سخا کو دیکھ کر اسے دان کرنے والے "داتا" کے نام سے یاد کرنے لگے۔

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل کا ملاں را رہنما

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری

یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی اور اس کتاب کے شروع میں ہی مصنف لکھتے ہیں میں ابو الحسن علی بن عثمان، اللہ تعالی سے مدد طلب کرتا ہوں کہ وہ مجھے یہ کتاب مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور میں اپنے قول و عمل میں اپنی قوت و صلاحیت (پر بھروسہ کرنے) سے مکمل بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ بے شک توفیق اور مدد اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

اثبات علم کے باب میں لکھتے ہیں جان لو کہ علوم بہت زیادہ ہیں اور عمر بہت کم ہے اس لیے ہر شخص پر تمام علوم سیکھنا فرض نہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ایک عام آدمی کے لیے علم طب میں سے اتنا جاننا کافی ہے جس سے وہ مختلف بیماریوں سے بچ سکے۔ پس اتنا علم فرض ہے جس سے عمل درست ہو سکے۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو غیر نافع علم سیکھتے ہیں۔

رسول کریم ﷺ نے اس سے پناہ مانگتے ہوئے فرمایا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے۔

حضرت حاتم الاصم فرماتے ہیں میں نے جان لیا کہ میرا رزق طے شدہ ہے اسے زیادہ کرنے کی لالچ اس میں اضافہ نہیں کر سکتی چنانچہ میں رزق میں اضافے کی طلب سے بے فکر اور مطمن ہوگیا۔

آگے اسی باب میں بیان کرتے ہیں اپنے وقت کے علم کا حصول بھی بندے پر فرض ہے تاکہ جب (عمل کا) وقت آئے تو ظاہر و باطن میں اس کے کام آ سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے یہ جان لیا کہ اللہ اس کا رب ہے اور میں اس کا نبی ہوں اللہ تعالی نے اس کے گوشت اور اس کے خون پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دیا۔

مزید بیان فرمایا جو شخص علم معرفت نہیں رکھتا اس کا دل جہالت کی وجہ سے مردہ ہے اور جس شخص کے پاس علم شریعت نہیں اس کا دل بے علمی کے باعث بیمار ہے۔

اگلے باب "فقر" میں ایک واقعہ لکھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک درویش کی بادشاہ سے ملاقات ہوئی۔ بادشاہ نے کہا مجھ سے کوئی چیز مانگ لو درویش نے کہا میں اپنے غلاموں کے غلاموں سے کچھ نہیں مانگتا بادشاہ نے کہا یہ کیسے ہے؟ درویش نے کہا میرے دو غلام ہیں اور یہ دونوں ہی تیرے آقا ہیں ایک حرص اور دوسری خواہش۔

حضرت شپلی رحمت اللہ علیہ کا قول ہے فقیر وہ ہے جو اللہ کے سوا کسی چیز سے غنی نہیں ہوتا۔

ابو الحسن نوریؒ فرماتے ہیں فقیر کی تعریف یہ ہے کہ فقیر کسی چیز کی عدم موجودگی میں سکون میں ہوتا ہے اور اس کی موجودگی کی صورت میں اسے خرچ کر دیتا ہے۔

اب کچھ انمول موتی گدڑی کے باب سے۔۔

جان لینا چاہیے کہ گدڑی پہننا صوفی لوگوں کی ایک مخصوص نشانی ہے۔ گدڑی پہننا سنت ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لباس صوف (گدڑی) پہنا کرو، اپنے دلوں میں ایمان کی مٹھاس پاؤ گے۔

ایک صحابی نے بتایا رسول کریم ﷺ لباس صوف (اونی لباس) پہنتے اور دراز گوش کی سواری استعمال کیا کرتے۔

رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا لباس کو اس وقت تک ضائع نہ کرو جب تک کہ اس میں پیوند نہ لگ جائیں۔

حضرت عمر بن خطابؓ کے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ ان کے پاس ایسی گدڑی تھی جس میں تیس پیوند لگے ہوئے تھے اور حضرت عمرؓ ہی سے روایت ہے "بہترین لباس وہ ہوتا ہے جس کی لاگت کم ہوتی ہے"۔

شیخ ابو علی سیاہ مروزی سے روایت کیا گیا ہے گدڑی پہننے کا حق کسے حاصل ہے؟ آپ نے فرمایا "وہ شخص جو مملکت الہی میں ایسا شرف رکھتا ہو کہ اسے اس جہان میں صادر ہونے والے قضا و قدر کے فیصلوں کے متعلق ہر روز آگاہ کر دیا جائے"۔

ملامت کے باب میں اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔

میں خراسان میں کمش کے علاقے میں ایک دیہات میں پہنچا جہاں ایک خانقاہ میں صوفیوں سے ملتے جلتے کچھ لوگ بر اجمان تھے میں سنت کے مطابق ایک کھردری اون کی گدڑی پہنے ہوئے تھا اور میرے پاس اہل ظاہر کے رسوماتی سامان میں سے ایک عصا اور ایک چھاگل(پانی کی بوتل) کے سوا کچھ نہ تھا۔

میں اس جماعت کی نگاہ میں انتہائی حقیر تھا مجھے وہاں کسی نے نہیں پہچانا وہ ظاہری حکم کے تحت مجھ سے گفتگو کرتے رہے اور ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا درست بھی تھا کیونکہ میں واقعی ان میں سے نہ تھا وہاں اس رات میرا ٹھہرنا ضروری تھا رات کو مجھے انہوں نے ایک برآمدے کی نیچے جگہ دی اور خود ایک بلند بالکونی پر چلے گئے۔ میری جگہ پر خشک زمین تھی اور میرے سامنے سبز روٹی (پھپھوندی لگی ہوئی باسی روٹی) رکھ دی گئی مجھے ان کے سامنے رکھے ہوئے مرغن کھانوں کی خوشبو پہنچ رہی تھی۔

ان کی بالکونی سے میرے متعلق ان کی طنزیہ گفتگو بھی مجھ تک پہنچ رہی تھی جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے کھانے لگے اور ہنسی مذاق میں خربوزوں کے چھلکے میرے سر پر پھینکتے رہے۔ اپنے فقیری حال اور ان کے ہلکے پن کو میں دل ہی دل میں برداشت کرتا رہا اور اپنے رب سے کہتا "یا الہی! اگر انہوں نے تیرے دوستوں کا سا لباس نہ پہنا ہوتا تو میں ان کے ہاتھوں کبھی یہ رسوائی برداشت نہ کرتا وہ جس قدر بھی مجھ پر طعن اور تشنیع کرتے تھے میرے دل کی کلی اسی قدر کھلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک مشکل سہنے سے میری وہ روحانی مشکل حل ہوگئی۔ میں نے اس وقت جان لیا کہ مشائخ اپنے پاس جاہلوں کو کیوں جگہ دیتے ہیں۔ ان کی جہالت کا بوجھ کیوں اٹھاتے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالی میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔ اور تمام پڑھنے والوں سے دعاؤں کی درخواست ہے۔

توفیق تو اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

گر قبول افتد، ذہے عزوشرف

Check Also

Qainchi Cycle Aur Master Jee

By Mubashir Aziz