General Sahib Aur Razi Ba Raza (1)
جنرل صاحب اور راضی بہ رضا (1)
یہ 1952 کا اٹک ہے پاکستان بنے ہوئے ابھی پانچ سال ہوئے تھے اٹک کے ایک مقامی سکول میں ایک بچہ اپنے سکول فیلوز کے ساتھ فٹبال کھیل رہا تھا مٹی سے شرابور مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والےاس بچے کے کان میں آواز پڑی کہ ان کے سکول میں فوج کے کچھ لوگ آئے ہیں۔
تجسس سے مجبور ہو کر یہ بچہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ پرنسپل آفس تک آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ پاکستان ایئر فورس کے لوگ ہیں جو ایک نئے پبلک سکول کے لیے سٹوڈنٹس کا اندراج کر رہے ہیں۔ قسمت کی دیوی مہربان ہونی تھی اور یہ بچہ بھی اپنا نام متوقع سٹوڈنٹس کی لسٹ میں لکھوا لیتا ہے۔ اور یوں کچھ ہی مہینوں کے بعد وہ پاکستان کے سب سے بہترین سکولوں میں سے ایک لوئر ٹوپہ مری کے مقام پر قائم شدہ پبلک سکول کا حصہ بن کر اپنی زندگی کے تین سال وہاں پر گزارتا ہے۔
یہی بچہ آگے جا کر پاکستان آرمی جوائن کرتا ہے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچتا ہے۔ اور سندھ کی گورنری کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں جنرل معین الدین حیدر کی۔ پچھلے ہفتے جنرل صاحب سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ سادگی، وقار اور متانت ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ فاطمید فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو چیئرمین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ کالم میں آگے جا کر اس پر بات کرتے ہیں۔
جنرل صاحب راضی بہ رضا کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کے فیصلے کیسے انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے تین دلچسپ واقعات بتائے۔
ان کی فیملی فروری 1948 میں انڈیا سے پاکستان بحری جہاز کے ذریعے پہنچی۔ والد صاحب کا نام مفتی بہاؤالدین تھا اور ان کے نانا حضرت باقی با للہ کے سجادہ نشین تھے۔ پاکستان آنے کے بعد ان کے والد صاحب کو فوڈ کنٹرولر کے محکمے میں ملازمت مل جاتی ہے۔ سٹرگل کے ایام، بڑی فیملی لیکن کبھی اپنے خوابوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
سکول میں فٹبال کھیلتے ہوئے پرنسپل آفس جانے والی کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔ کہنے لگے ثاقب صاحب یہ آواز کہ ہمارے سکول میں فوج سے کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں فٹبال کھیلتے ہوئے چند ہی بچوں نے سنی وہ بچے جو گراؤنڈ کی دوسری سائیڈ پر تھے اس بات سے بے خبر تھے۔ یہ بات سن کر اپنا نام درج کروانا ان کی زندگی کو ٹرانسفارم کر گیا۔
بتاتے ہیں کہ صرف ایک روپیہ لے کر وہ مری میں موجود پبلک سکول میں پہنچے اس سکول کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہاں زیادہ تر اساتذہ انگریز تھے آکسفورڈ اور کیمبرج کے پڑھے ہوئے۔
اس سکول میں گزارے ہوئے تین سالوں نے ان کی شخصیت کو بنا دیا۔
کہتے ہیں سب سے پہلی چیز خود اعتمادی سیکھی، صبح سویرے اٹھنا، اپنا بستر خود تیار کرنا، لائن بنانا، سخت سردی میں برف پر چلنا، بولنے کا فن سیکھا اور اطمینان سے زندگی گزارنا سیکھی۔
مہاتما بدھ نے فرمایا کہ بے اطمینانی سب سے بڑا دکھ ہے اور اطمینان سب سے بڑا سکھ وقت سے چھین لاؤں گا۔
چارلس ڈکنز کا کہنا ہے خوش مزاجی اور طمانیت آپ کی خوبصورتی کے لیے لازم و ملزوم ہے یہ آپ کی نوجوانی برقرار رکھنے میں کرامت ثابت ہوں گے۔
علامہ محمد اقبال نے فرمایا زندگی کا راز یہ ہی ہے کہ جہاں رہو جس حال میں رہو خوش رہو اور مطمئن رہو۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ اگر اس دن میں بھی گراؤنڈ کی دوسری سائیڈ پر ہوتا تو اس قیمتی موقع کو گنوا بیٹھتا۔
اسی سکول سے پالش شدہ شخصیت ساری زندگی ان کے کام آئی۔
1960 میں فوج کو جوائن کیا اور ڈھائی سال کی سخت ترین ٹریننگ کے بعد سیکنڈ لیفٹیننٹ بنے۔ 1965 کی جنگ میں یہ کپتان تھے اور قصور کے ساتھ انڈین سٹی کیم کھیرن کو فتح کرنے والے دستے کا حصہ تھے۔
کہتے ہیں کہ ہمیں قصور سے سیالکوٹ (چونڈا) پہنچنے کا حکم ملا راستے میں لوگ فوجی جوانوں کے اوپر پھول اور فروٹ پھینک رہے تھے۔ دکان سے کوئی چیز لیتے تو دکاندار پیسے لینے سے انکار کر دیتے۔ عوام اور فوج کے درمیان دوبارہ سے اس محبت کا زندہ ہونا وقت کی کلیدی ضرورت ہے۔
قسمت اور اللہ تعالی کی رضا پر راضی ہونے کا دوسرا واقعہ ان کی شادی سے جڑا ہوا ہے ان کی والدہ بچیوں کو قران مجید پڑھانے والی خاتون کے گھر پر جاتی ہیں وہیں پر ان کی ملاقات ان کی ہونے والی شریک حیات سے ہوتی ہے شادی طے پا جاتی ہے گویا سب کچھ پہلے سے ہی آسمانوں پر لکھا ہوا تھا۔ اللہ تعالی کی رضا پر راضی ہونے کی مشق پوری دنیا میں کرائی جا رہی ہے۔
امریکہ میں اپنی اپنی پروفیشن میں ملک اور دنیا کے بہت سے کامیاب ترین لوگوں سے ان کی عادات پوچھی گئی تو ایک عادت ان سب میں مشترکہ نکلی وہ یہ تھی کہ ان سب کو پختہ یقین تھا کہ ان کے ساتھ ہونے والی ہر چیز ہر واقعہ چاہے بظاہر اچھا ہو یا برا ان کے لیے کسی بہتری کسی خوش قسمتی کا سبب بنتا ہے۔
اس میں آپ نے صرف یہ کرنا ہے کہ آج کے بعد روزمرہ کی زندگی میں جو بھی چیز ہوتی ہے یا کوئی واقعہ آپ کے ساتھ پیش آتا ہے آپ نے اس وقت اس میں اپنے لیے کوئی بہتری سمجھنی ہے جیسے اگر آپ کا کسی کے ساتھ جھگڑا ہوتا ہے تو اس وقت اس میں بھی کوئی بہتری سمجھنی ہے۔ گو بعد میں آپ بیٹھ کر یہ سوچیں کہ یہ جھگڑا کیوں ہوا آپ کے کردار میں کیا کمی ہے آپ اب سے ہی محتاط ہو جائیں تاکہ کل یہ جھگڑا بڑھنے نہ پائے یا اس شخص سے دور ہو جائیں۔
اسی طرح اگر آپ کو کاروبار میں کسی نقصان کا سامنا ہوتا ہے تو اس میں بھی کوئی بہتری سمجھنی ہے بعد میں بیٹھ کر سوچیں یہ نقصان کیوں ہوا ہے اس سوراخ کو بند کریں ورنہ کل پوری کشتی ڈوب سکتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کہیں جا رہے ہیں اور راستے میں ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں تو اس میں بھی کوئی بہتری سمجھیں یہ سوچیں کہ آپ صحیح وقت پر ہی منزل پر پہنچ پائیں گے ہو سکتا ہے لیٹ ہونے کی وجہ سے آپ کسی حادثہ سے یا پریشانی سے بچ جائیں منزل پر کوئی غلط شخص بھی موجود ہو سکتا ہے جو کہ آپ کے لیٹ ہونے کی وجہ سے وہاں سے چلا جائے۔
آپ نے ہر کام میں مسلسل الجھے رہنے اور مشکل کاموں میں لگاتار ٹکریں مارنے سے بچنا ہے اگر کوئی اہم کام اس وقت نہیں ہوتا ہے تو دوسری بار اسے مکمل تیاری کے بعد ٹرائی کریں پھر بھی نہ ہو تو اسے چھوڑ دیں۔ اگر وہ کام آپ کے لیے بہتر ہوا تو انشاءاللہ مستقبل میں مناسب وقت پر آپ کا انتظار کر رہا ہوگا ورنہ کوئی اور زیادہ بہتر کام مستقبل میں آپ کی راہ تک رہا ہے اور اس فلسفے کو زیادہ گہرائی میں سمجھنے کے لیے جنرل صاحب کی زندگی سے اخذ کردہ تیسرے واقعے کو ڈسکس کرتے ہیں۔
1988 کا سال تھا اور معین الدین حیدر صاحب بریگیڈیئر کی پوسٹ پر پہنچ چکے تھے اور جنرل ضیاء الحق کی ٹیم کے ساتھ اسلام آباد میں ڈیوٹی دے رہے تھے۔ ان کے قریبی عزیزوں میں ایک شادی کی تقریب کراچی میں منعقد ہونا قرار پائی۔ اللہ تعالی نے معین صاحب کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی نعمت عطا کی۔ فیملی شادی میں جانے کا فیصلہ کرتی ہے جہاز میں بکنگ کروائی جاتی ہے لیکن عین وقت پر ان کا ایک بیٹا شدید بیمار ہو جاتا ہے۔ اس بیٹے کو ان کے پاس چھوڑ کر ان کی بیگم صاحبہ باقی فیملی ساتھ لے کر کراچی چلی جاتی ہیں۔
سخت ذمہ داری کے دوران بیٹے کی دیکھ بھال ایک چیلنج سے کم نہیں تھی۔ اس دوران جنرل ضیاء الحق صاحب کا ایک دورہ بہاولپور کے لیے طے ہوتا ہے۔ بریگیڈیئر معین الدین صاحب کا نام بھی اس ٹیم میں شامل ہوتا ہے۔ جس نے جنرل صاحب کے ساتھ بہاولپور جانا تھا۔ اپنے بیٹے کی بیماری سے پریشان بریگیڈیئر صاحب اپنا نام متوقع ٹیم ممبر کی لسٹ سے نکلوا لیتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق صاحب کا طیارہ بہاولپور سے واپسی پر حادثے کا شکار ہوتا ہے اور جہاز میں موجود تمام مسافر شہید ہو جاتے ہیں۔ بیٹے کی بیماری کی چھوٹی سی تکلیف دے کر اللہ تعالی نے ان کی زندگی بچا لی۔
یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی۔
پچھلے 20 سالوں سے جنرل صاحب فاطمید فاؤنڈیشن سے وابستہ ہیں۔
کہتے ہیں ثاقب صاحب، لوگ بھوک سے نہیں بے اعتنائی سے مرتے ہیں۔
دوسروں کے غم اپنانے والے آنسو پونچھنے والے جتنے زیادہ ہوں گے معاشرے اتنے ہی خوبصورت ہوں گے۔
(جاری ہے)