Saturday, 11 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Saqib/
  4. Fuel For Ramzan Kareem

Fuel For Ramzan Kareem

فیول فار رمضان کریم

(1)

سرونج میں ایک بڑھیا ہمارے پاس آئی اور اپنی بیٹی کے لیے تعویز مانگا ہم نے فورا لکھ دیا۔ وہ بولی کہ اس پر شہید صاحب آتے ہیں۔ بہت تعویز گنڈے کر چکی ہوں مگر کسی سے فائدہ نہ ہوا۔

ہم نے تعویذ واپس لیا اور کہا اری نیک بخت! اچھا ہوا جو تو نے کہہ دیا ورنہ رات کو شہید صاحب سے ہماری لڑائی ہوتی۔

وہ نہایت منت و سماجت کرنے لگی۔ ہم نے کہا کہ پہلے شہید کی نیاز کا سوا روپیہ، سوا سیر گھی، سوا سیر شکر اور ایک تھان لٹھا کا لاؤ اس کے بعد تعویز ملے گا۔ چنانچہ وہ سب چیزیں لائی اور تعویذ لے گئی۔ دوسرے دن آ کر خبر دی کہ میاں صاحب خدا تمہارا بھلا کرے آج کی رات میری لڑکی نہایت آرام سے سوئی۔

ہم نے کہا کہ آرام کیوں نہ ہوتا شہید کو تو ہم نے جانے نہیں دیا تمام رات یہاں لڑتا رہا غرض اس نقط و جنس کا حلوہ پکا کر یاران ہمسفر کو کھلایا اور تھان کے کپڑے بنوا دیے۔

سچ ہے۔

الدنیا زور لا یحصل الا بالزور

(دنیا جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔)

اور جب تک کچھ لیا نہیں جاتا دنیا داروں کو یقین نہیں آتا ورنہ کون شہید اور کیسا تعویز۔

یہ بھی اپنا خیال و وہم ہے۔ کسی انگریز کے سر پر کبھی جن بھوت نہ دیکھا، حالانکہ ہندوستانوں سے زیادہ وہ خوبصورت ہیں۔

اس کہانی سے ہمارے دماغی گرہیں کھل جانی چاہیں۔ ایک ریسرچ نے بتایا ہے کہ جعلی پیروں کی طرح پاکستان میں جعلی جادوگروں کی بھرمار ہے۔ اور بحیثیت مائنڈ سائنسز ٹرینر میں جانتا ہوں کہ کیسے انسانی نفسیات سے کھیل کر وہ لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔

قرآن مجید کا یہ فرمان ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ (جن لوگوں نے خدا کے سوا اوروں کو کارساز بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہےکہ وہ بھی گھر بناتی ہے اور کوئی شک نہیں کہ سب گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ کاش یہ اس بات کو جانتے۔)

(2)

حجاج بن یوسف ایک دن شکار کو گیا راہ میں پیاس کی شدت ہوئی۔ ایک غریب بڑھیا نے خوب سرد پانی پلایا۔ نہایت خوش ہوا کہا کہ میرے دربار میں آ تجھ کو ایسا انعام دوں گا کہ آج تک کسی نے نہ دیا ہوگا۔

بڑھیا بیچاری دوڑی آئی کہ دیکھیں کیا کچھ دے گا۔ جب دربار میں حاضر ہوئی تو حجاج بولا کہ دنیاوی اشیاء میں سے اگر کوئی شے تجھ کو دوں تو اس کو قیام نہیں۔ اس لیے جی یوں چاہتا ہے کہ تجھ کو اپنے ہاتھ سے جام شہادت پلاؤں۔

یہ سن کر بڑھیا کے ہوش اڑ گئے بولی کیا دنیا میں نیکی کا بدلہ بدی ہے۔ اس نے کہا نہیں، میں تو ایک پیالہ پانی کے عوض تجھ کو جام شہادت پلاتا ہوں اور تو ہمیشہ بہشت کے اندر حوض کوثر سے سیراب رہے گی بھلا اس سے بڑھ کر انعام کیا ہو سکتا ہے؟

غرض تلوار کھینچ کر بڑھیا کا سر اڑا دیا۔

حضرت علیؓ کے فرمان کا مفہوم ہے۔

جس پہ احسان کرو اس کے شر سے بچو۔

(3)

ایک مقام پر اژدھا سرراہ پڑا تھا۔ خوف کے مارے ادھر کا راستہ مسدود ہوگیا۔ اتفاقا اس راہ سے ایک فقیر باتاثیر گزرا۔ ہر چند لوگوں نے منع کیا اور خوف دلایا مگر اس نے کہا خیر جو پیش آئے گا دیکھا جائے گا۔

جب پاس پہنچا تو اژدہا پھنکارہ۔

فقیر نے کہا بس خاموش۔

فقیر تو چل دیا مگر اژدہا خاموش رہ گیا۔

کچھ مدت کے بعد اسی راہ سے جو فقیر واپس آیا تو اس کا برا حال پایا سوائے استخوان و پوست کے کچھ نہ تھا۔

پوچھا تیرا کیا حال ہے۔ اس نے جواب دیا کہ مجھ کو لوگ بہت بہت ستاتے ہیں۔ کوئی لکڑی مارتا ہے، کوئی پتھر، کوئی اوپر چڑھ بیٹھا ہے۔ میں نہایت سختی میں ہوں فقیر صاحب نے فرمایا کہ ایسا تحمل بھی مت کیا کرو کہ لوگ تجھ کو مار ہی ڈالیں۔ ذرا پھوں پھاں کرکے ڈرا بھی دیا کر۔

اسی طرح فقیر کو بھی لازم ہے کہ نہ ایسا میٹھا بن جائے کہ لوگ کھا جائیں اور نہ ایسا کڑوا کہ تھوک دیں۔

تحمل بایدت لیکن نہ چنداں

کہ کردد چیرا گرگ تیز دنداں

(تجھے تحمل کرنا چاہیے لیکن اتنا نہیں تیز دانتوں والا بھیڑیا دلیر یا گستاخ ہو جائے۔)

(4)

حضرت موسیؑ ایک مکان میں بیٹھے تھے اوپر سے کچھ قطرے حضرت کے کپڑوں پر گرے دیکھا تو چھپکلی تھی۔ جناب باری میں عرض کی کہ خدایا اس کو کیوں پیدا کیا یہ کس مرض دوا ہے؟ اے موسی یہ چھپکلی بھی ہر روز یہی سوال کیا کرتی ہے کہ موسی کو کیوں پیدا کیا اس سے کیا فائدہ ہے؟

نہیں ہے نکمی کوئی چیز زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

یہ واقعات سید غوث علی شاہ کی مشہور کتاب " تذکرہ غوثیہ" سے منتخب کیے گئے ہیں۔

Check Also

Aap Ko Kya Pata? Hum Waldain Se Kyun Kehte Hain?

By Azhar Hussain Azmi