Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Energy Cycle Aur Mind Sciences

Energy Cycle Aur Mind Sciences

انرجی سائیکل اور مائنڈ سائنسز

میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا کہ جب آپ غربت (منفی انرجی) کا شکار ہوتے ہیں تو اس کا اثر مشینری پر بھی پڑتا ہے اور آپ کا موٹرسائیکل واشنگ مشین اور دیگر چیزیں خراب ہونے لگتی ہیں۔ اس کے جواب میں کچھ لوگوں نے پوچھا کہ نیگٹو انرجی سے جسمانی اور ذہنی صحت کی خرابی کا کنکشن تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کیا یہ اتنا پاور فل ہوتا ہے کہ فزیکل چیزوں کو بھی خراب کر دے؟ اس کنکشن کو اس کہانی کی مدد سے سمجھتے ہیں۔

ایک بڑا مالدار اور آسودہ حال آدمی تھا اس کا نام ذیشان تھا۔ حالات نے اس کو بڑے بُرے دن دکھا دیے، اس کا سب کاروبار تباہ ہوگیا اس کی ساری زمین مکان جائیداد بک گئی۔ یہاں تک کہ قرضے لے کر کھانے تک نوبت آگئی پھر کچھ دن گزرنے کے بعد قرض دینے والوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور قرض خواہوں نے اپنے پیسوں کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔

وہ ان کو کچھ عرصے تو جھوٹے وعدوں پر ٹالتا رہا، مگر کب تک عزیز و اقارب نے بھی ملنا چھوڑ دیا، دوست تک حال پوچھنا چھوڑ گئے، وہ حالات کی بہتری کی جو کوشش کرتا وہ الٹی پڑتی، مانگ تنگ کر چھوٹا موٹا کام کرنے کی کوشش کرتا تو اس پہ بھی قدرت کی طرف سے کوئی نقصان ہو جاتا، ملازمت ڈھونڈتا رہا تو ملازمت بھی نہ ملی حالات ایسے ہوئے کہ کسی کو ملنے جاتا تو وہ اسے پانی تک نہ پوچھتے جب اسی حال میں ایک مدت گزر گئی تو اسے پتا چلا کہ اس کے بچپن کا دوست اس کے علاقے کا بادشاہ بن چکا ہے۔ ذیشان خوددار آدمی تھا اس کے پاس مدد مانگنے نہیں جانا چاہتا تھا، مگر جب کھانے سے ہی تنگ ہوگیا تو اس کے پاس چلا گیا بادشاہ اس وقت دربار میں تھا اس نے ذیشان کو وہاں ہی بلوا لیا۔

ذیشان نے اپنی ساری کہانی اسے سچ سچ تفصیلا سنا دی۔ پھر کہنے لگا کہ اب میری حالت یہ ہے کہ اگر میرے ہاتھ میں اس وقت کوئی سونا بھی دے دیتا تو میرے ہاتھ میں آتے ہی وہ بھی جیسے مٹی ہو جاتا ہے۔ میں ایک ایسا پنچھی بن چکا ہوں کہ جس درخت پر بیٹھتا ہوں وہ درخت سوکھ جاتا ہے۔ بادشاہ اس کی ساری داستان غور سے سنتا رہا پھر اسے کہا کہ کل میں تمہاری مشکلات کا حل کروں گا اب تم جاؤ مہمان خانے میں جا کر نہاد دھو لو کھانا کھاؤ جو جو چیز چاہیے ملازموں کو بتاؤ۔ کل صبح پھر یہاں ملاقات ہوگی۔ ذیشان بڑا خوش ہوا مہمان خانے جا کر نہایا، صاف کپڑے پہنے، طرح طرح کے کھانے ملے، پیٹ بھر کر کھایا۔ رات کو نیند نہیں آرہی تھی کبھی خواب میں اسے اپنے پاس اشرفیوں کی بوری نظر آتی کبھی خود کو کسی بڑی جائیداد کا مالک دیکھتا نوکر چاکر اور مال مویشی سب کچھ گھر میں دیکھتا صبح اٹھ کر نہا دھو کر ناشتہ کیا، پھر دربار میں بادشاہ کو ملنے چلا آیا وہ اس امید پر تھا کہ اب اس سے بہت سے پیسے مال دولت وغیرہ ملیں گے۔

مگر بادشاہ نے کہا "تم میرے بچپن کے دوست ہو میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں تم بھی کیا یاد کرو گے" پھر اس نے اپنے وزیر کو بلوایا اور کہا کہ ذیشان کو میری طرف سے سو بھیڑیں دے دی جائیں اور ذیشان سے کہا کہ شہر کے ساتھ والے پہاڑ پر جہاں چاہے انہیں چراؤ کوئی تمہیں نہیں روکے گا تم ہر ماہ چاند کی پہلی کو مجھے ملنے آیا کرنا۔ ذیشان ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے سوچا کہ یہ بادشاہ ہے یا کوئی مسخرہ، میرے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہا میں بڑا خاندانی آدمی ہوں، یہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے اور پھر اوپر سے کہتا ہے کہ تم میرے بچپن کے دوست ہو میں تمہاری مدد کروں گا، کیا بچپن کے دوست سے ایسے ہی کیا جاتا ہے؟

مگر حالات سے تنگ تھا کہ بادشاہ کی بات رد بھی نہ کر سکا۔ چپ چاپ بھیڑیں لیں اور پہاڑ پر جا کر چرانے لگا۔ اس کے دن ایسے برے تھے کہ پہلے ہفتے ہی ایک درجن بھیڑے مر گئیں، مہینہ پورا ہوتے ہوتے اس کی 40 بھیڑیں مر چکی تھیں۔ وہ نیا مہینہ شروع ہوتے ہی حسب وعدہ بادشاہ کو ملنے گیا۔ بادشاہ نے حال چال پوچھا ذیشان نے آپ بیتی سنائی اس کا خیال تھا کہ پہلے مہینہ اس کا امتحان لیا جا رہا تھا اب اس کی خلاصی ہو جائے گی۔

بادشاہ نے کہا" تم میرے دوست ہو کیا یاد کرو گے" پھر اپنے وزیر کو حکم دیا اس کو مزید 40 بھیڑیں دے کر اس کی سو بھیڑیں پوری کر دو اور ذیشان سے کہا کہ جا کر اس کو چراؤ، یہ تمہاری ہیں، ذیشان مرتا کیا نہ کرتا، بھیڑیں لے کر پہاڑ پر چلا گیا۔

بدقسمتی پھر اس کے ساتھ تھی، دوسرے ماہ اس کی 25 بھیڑیں مریں۔ نئے ماہ کے شروع ہوتے ہی وہ بادشاہ کو ملنے آیا اس کا خیال تھا کہ اب کافی ہو چکی ہے، بادشاہ اسے اب پیسے وغیرہ دے گا مگر بادشاہ نے پھر اسے مزید 25 بھیڑیں دے کر ان کی تعداد پھر سے سو کر دی۔

ذیشان پھر واپس پہاڑ پر آگیا پھر ہر ماہ کبھی اس کی 20 بھیڑیں مرتی، کبھی 30، ہر ماہ بادشاہ کو ملنے جاتا تو وہ ان کی تعداد پھر سے سو پوری کر دیتا، ذیشان اسے ہی مقدر سمجھ کر یہ کام کرتا رہا پھر تقریبا سال گزرنے کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ اس کی بھیڑیں مرنی کم ہوگئیں اور کچھ مدت کے بعد ان کی تعداد بڑھنے لگ پڑی۔ پھر ایک دن جب وہ بادشاہ کو ملنے گیا اور بادشاہ نے اس سے بھیڑوں کا پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ وہ تقریبا 150 ہو چکی ہیں، انشاءاللہ سال میں ان کی تعداد 300 ہو جائے گی۔ میں اب بڑا حوصلے میں اور پر امید ہوں، سنت نبی ﷺ مجھے راس آگئی ہے۔ بادشاہ نےجب یہ سنا اور ذیشان کو حوصلے میں دیکھا تو اپنے وزیر کو بلایا اور اس کے کان میں کچھ کہا۔

ذیشان سوچنے لگا کہیں یہ کنجوس بادشاہ اس کی فالتو 50 بھیڑیں تو واپس لینے کے بارے میں وزیر کو نہیں بتا رہا۔ وزیر تھوڑی ہی دیر میں اشرفیوں سے بھرا ایک تھیلا لے کر آگیا۔ بادشاہ نے ذیشان کو گلے لگایا اور وہ تھیلا ذیشان کو دے دیا اور کہنے لگا اب اسے لو اور اب تم اس قابل ہو گئے ہو کہ دوبارہ پھر سے کاروبار کر سکو، میں معافی چاہتا ہوں کہ تم سے بھیڑیں چرواتا رہا، مگر وہ تمہارے لیے ضروری تھا کیونکہ جس وقت تم میرے پاس پہلی بار آئے تھے تو تمہاری حالت اور حوصلہ اتنا گرا ہوا تھا کہ میں اگر اس وقت تمہاری جتنی بھی مدد کرتا، تم نے نقصان ہی کرنا تھا، پہلے تمہارا حوصلہ قائم کروانا لازمی تھا۔ جب تک اعتماد بحال نہ ہو کوئی کام کاروبار صحیح نہیں ہوتا اعتماد قدم با قدم ہی بحال ہو تو پھر انسان اسے جلدی نہیں کھوتا پھر اگر شروع ہی میں تمہاری بڑی رقم سے مدد کرتا تو تمہارا اس وقت جو حوصلہ تھا تمہارا سایہ مجھے بھی لے ڈوبتا، تمہارے برے دن گزر چکے ہیں۔ اب مجھے یقین ہے کہ تم ترقی ہی کرو گے، بہرحال جب بھی کچھ ضرورت ہو میں یہاں موجود ہوں" تم چاند کی پہلی کو مجھے ملنے آیا کرنا مگر اب ہم شکار کھیلنے جایا کریں گے"۔

اس کہانی میں اور بھی سبق موجود ہیں۔

کوئی بھی شخص جو لمبے عرصے تک ناکام ہو رہا ہو اسے چاہیے کہ ذیشان کی طرف اپنی بھیڑیں نہ مارے۔ اپنی سپیڈ کو آہستہ کرے۔ اسے چاہیے کہ صبر و سکون کے ساتھ اپنے حالات کا جائزہ لے۔ ممکن ہو تو کہیں چھٹیوں پر چلا جائے۔ کوئی بھی ڈر اگر انسان کے اندر بیٹھ جائے چاہے وہ پیسے کا ہو اچھا رشتہ نہ ہونے کا ہو صحت کا ہو اسے قدم بقدم صحیح کرنا چاہیے۔

اگر آپ کسی مستقل لوزر بدقسمت شخص کو اپنا پارٹنر بنا لیتے ہیں تو وہ آپ کا بھی بیڑا غرق کر دے گا۔ ایسا شخص آپ کے فیملی ممبران بھی ہو سکتے ہیں اور آپ خود بھی۔

اس میں سمجھنے کی بات ہے کہ اگر آپ روپیہ پیسہ ہار بیٹھتے ہیں تو یہ نقصان پورا ہو جائے گا۔ آپ کی صحت، تعلیم اور تجربہ آپ کے پاس موجود ہے۔ لیکن اگر آپ مایوس ہو گئے تو نیگٹو انرجی (بدقسمتی) کے چکر میں پھنس جائیں گے۔

اس نیگٹو انرجی سے نکلنے کا بہترین وقت ابھی ہے رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں قرآن و حدیث میں بتائی ہوئی دعائیں پابندی کے ساتھ کریں اور ایک دعا کا اضافہ کریں۔

اللہ تعالی سے یقین کامل خوش قسمتی اور برکت کی دعا کریں یہ چیزیں آپ کو مل گئیں تو آپ کے دن پھر گئے کیونکہ "ہنر (سکل سیٹ) سڑک پر تماشا دکھانا ہے اور قسمت محلوں میں راج کرتی ہے"۔

اللہ تعالی نے برکت کا جھاگ لگا دیا تو چھوٹا سا کام ملازمت کچھ ہی ہفتوں میں آپ کو نیکسٹ لیول تک لے جائے گی۔

جب تک آپ خود خاصی ترقی نہ کر چکے ہوں اس وقت تک کسی مستقل ناکام رہنے والے شخص سے بچیں۔

سیدنا عمر فاروق سے ایک شخص نے پوچھا کہ انسان کو کیسے پتا چلے کہ اس کی دعا قبول ہوئی یا نہیں انہوں نے جواب دیا جس کا مفہوم ہے۔

درود شریف ایک ایسی دعا ہے جو ہمیشہ قبول ہوتی ہے۔

اس لیے دعائیں کرتے ہوئے دعا کے آ غاز اور اختتام پر درود شریف پڑھ لیا جائے۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Dard Hoga Tu Delivery Hogi

By Muhammad Saqib