Duty To The Pen
ڈیوٹی ٹو دی پن
دمشق میں پاکستانی سفارت خانے کے گیراج میں ایک چھوٹا سا سکول کھولا جاتا ہے۔ یہ 1987 کا زمانہ ہے سفارتی عملے کے بچوں کے علاوہ کچھ مقامی بچے بھی سکول میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ ڈسپلنڈ ماحول اور اساتذہ کی محنت ہر گزرتے دن کے ساتھ اس سکول کے وقار میں اضافہ کرتی ہے اور آج مارچ 2024 یہ سکول دمشق کے ٹاپ انٹرنیشنل کالج کا روپ دھار چکا ہے اور فارغ التحصیل سٹوڈنٹس کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
ایسی ہی ایک مشعل سندھ کے چھوٹے سے شہر کنڈیا رو میں کچے کے علاقے میں لگائی گئی۔ کچے کا علاقہ دریا کی تندی کے ساتھ آباد اور ویران ہوتا رہتا ہے۔ درجن، درجن گھروں پر مشتمل کنبے مختلف ٹکڑوں میں آباد ہیں اور یہاں پر سکول کا قیام ایک خواب سے زیادہ نہ تھا۔ مقامی لیڈی ٹیچر کے لیے علاقے کے لوگوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے ایک نوجوان لڑکی کو انٹرویو کے لیے بھیجا۔
آنکھوں میں چمک اور بڑے ویژن والی اس لڑکی کے ہاتھوں میں مسلسل گھاس کاٹنے کی وجہ سے نشانات بنے ہوئے تھے لیکن اس کا اعتماد اس کی بڑی منزل کی مسافر ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ وہ نوجوان لڑکی بحیثیت ٹیچر اپنا کام شروع کرتی ہے۔ اپنے تمام بہن بھائیوں کو سکول لے کر آتی ہے پھر گوٹھ کے تمام بچے سکول آنے لگ جاتے ہیں۔ پورے علاقے میں ایجوکیشنل انقلاب آتا ہے ایک سکول سے چار سکول ہو جاتے ہیں اور آج 2024 میں تقریبا 800 سٹوڈنٹس ان سکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور خاص بات یہ ہے ثاقب صاحب کہ ان 800 سٹوڈنٹس میں %42 لڑکیاں ہیں۔
چہرے پر تدبر اور آنکھوں میں بڑے خواب سجائے ہوئے دل کو چھونے والے یہ داستان پاکستان کے سابق سفیر غلام رسول بلوچ صاحب بیان کر رہے تھے۔ بلوچ صاحب ویتنام میں پاکستان کے سفیر رہے اور اس کے علاوہ 30 سالوں تک شام، کویت نیویارک اور موریش میں مختلف حیثیتوں میں کام کرتے رہے۔ مختلف وزرائے اعظم کے ساتھ بھی کام کیا۔
بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ بی بی کتابیں پڑھنے کی شوقین تھیں اور جونیئر آفیسرز کی بات بھی خوش دلی سے سنتی تھیں۔
روف کلاسرا یاد آگئے جو لکھتے ہیں کہ کتابیں پڑھنے والا شخص اختلاف رائے برداشت کر لیتا ہے اور نئے آ ئیڈیاز سننے کے لیے تیار رہتا ہے۔
دمشق کے ایام کو دوبارہ چھیڑتے ہوئے بتایا کہ ہم نے وہاں علامہ اقبال کلچرل سینٹر کی داغ بیل ڈالی اور Stanley Woodward کی مشہور کتاب Jinnah of Pakistan کا ترجمہ عربی زبان میں کروایا۔
بار بار تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا انسان کی اڑان" اقرا " سے چلی انسان کا شعور ہی اسے دیگر جاندار سے ممتاز کرتا ہے۔ انسان اور روبوٹ میں Emotions کا فرق ہے یہی چیز انسان کو ممتاز کرتی ہے اس بات کو اور گہرائی میں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ " درد اور ناکامی کی کہانیوں کے اندر ہی کامیابی چھپی ہوئی ہے "۔
اللہ تعالی کی اربوں نوری سال مسافت رکھنے والی اس کائنات میں کوئی بھی چیز ساکن نہیں ہے۔ انسان کے سفر میں جمود نہیں آنا چاہیے حرکت میں ہی قدرت پنہاں ہے۔
ہمیں اپنے اقوال، اعمال خواہ وہ طبعی ہوں یا تخیلاتی اپنی حرکت کو جاری رکھنا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ٹھہرے ہوئے انسان میں بھی بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے کام سے عشق کیا جائے۔
کوہ کن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی
میں نے اپنا پسندیدہ سوال، کامیابی کا فارمولا پوچھا تو قرآن مجید ترجمے سے پڑھنے کا مشورہ دیا۔ یہ یقینا ہماری اندرونی شمعیں اور راستے کھولنے کا ذریعہ ہے اور رمضان کا آنے والا مہینہ اس کو شروع کرنے کا بہترین وقت ہے۔ کتابیں پڑھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ نئے پڑھنے والے تاریخ اور خود نوشت سے اپنا کتب بینی کا سفر شروع کر سکتے ہیں۔
غلام رسول بلوچ صاحب کی انرجی نوجوانوں کے جیسی محسوس ہوئی۔ خوش لباس مضبوط آواز اور موثر باڈی لینگویج ان کی شخصیت کا خاصہ ہے ایک اور اھم بات اپنے محور سے کام شروع کرنے کے بارے میں بتائی۔
انسان کا محور اس کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے پہلے اس پر کام کیا جائے پھر قریبی فیملی، پڑوسی محلے دار کولیگز، شہر اور ملک کی باری آتی ہے۔
آپ سب کچھ کر سکتے ہیں دنیا کو ٹرانسفا رم کر سکتے ہیں خاصہ میٹھا راگ ہے جو حقیقت کی دنیا سے بہت دور لے جاتا ہے۔
بھرا ہے کس نے کوزے میں سمندر
یقینا آپ دیوانے ہوئے ہیں
پاکستانی نوجوانوں میں برداشت کی اہمیت پر زور دیا۔ ہم نے اپنے کمفرٹ زون سے نکل کر سوشلی اور پولیٹیکلی ایک نئی قوم بننا ہے۔ اس کے لیے فکری حرکت، تدبیر، نئی اپروچز گفتگو اور کلام کے نئے طریقے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
غلام رسول بلوچ صاحب کے لکھے ہوئے آرٹیکلز پر مشتمل خوبصورت کتاب "Duty To The Pen" اس وقت میری ٹیبل پر ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ایک معروف یونیورسٹی میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور یہی کامیابی کا سیکریٹ بتایا کہ آپ کی ذات سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، کسی درخت کو پانی دینا، بلی کو خوراک پہنچانا، لوگوں کے لیے اپنے دل میں اچھا گمان رکھنا۔
گفتگو کے آخر میں نوجوانوں کو صبر کا پیغام دیا۔ جو کامیابی کی اساس ہے۔ جدید دور میں ہم اس کو persistency کہہ سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کی رحمت صبر والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور محترم پڑھنے والوں آج سے ہم نے صبر کا دامن پکڑ کر رکھنا ہے۔