Bilal, Rahat Aur Satti
بلال، راحت اور ستی
گزشتہ چند دنوں سے سیاست کے علاوہ جن واقعات کے بارے میں بہت لکھا اور کہا جا رہا ہے وہ گلوکار بلال سعید کا اپنے ہی کانسرٹ میں بھرے مجمعے میں مائک پھینکنا، راحت فتح علی کا اپنے شاگرد کو بیہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانا اور اشفاق ستی (اینکر اے آر وائے نیوز) کا اپنی دوسری زوجہ کو مبینہ تشدد کا نشانہ بنانا ہے۔
ان تینوں واقعات کی آڑ میں سوشل میڈیا پر لائیک ویوز اور اِن رہنے کے لئے بہت سے لوگ معاشرے پر ہونے والے اثرات کو بالائے طاق رکھ کر بہت کچھ لکھ اور بول رہے ہیں۔ یہ تینوں واقعات ہماری گرتی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ نہ ہی اپنے پرستاروں کو حقیر سمجھنا جائز ہے، نہ ہی اپنے شاگرد یا ملازم کی مار پیٹ جائز ہے اور نہ ہی اپنی زوجہ کو مارنا کوئی عام شخص سپورٹ کرے گا لیکن ایسے بہت سے واقعات ہمارے اردگرد رونما ہوتے ہیں۔
ان سارے معاملات پر لکھنے اور بولنے والے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے گھر میں ان کا کوئی اپنا، یا محلے میں جاننے والا، یا دوست احباب میں سے کوئی جب اپنے کسی ملازم سے اس طرح کا رویہ اپناتا ہے یا اگر میاں بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو اسی انہماک کے ساتھ اس نوکر یا عورت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہی کہ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ جبکہ اگر معاشرے کا سدھار واقعی میں مقصود ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر، محلے اور دوستوں سے اس کا آغاز کریں نہ کہ شوشل میڈیا پر۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ ایسے معاملات کو اگر کسی زاتی فائدے، بغض، رنجش یا محض لائیکز کے لئے مس ہینڈل کیا گیا تو اس سے معاشرہ اس چیز سے ڈی سنسٹائز (بے حسس) ہوگا اور اس کے منفی نتائج ہو سکتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں گھر کی عورتیں دوپٹے کے بغیر گھر سے دروزے تک نہیں آتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ اس بات کو ڈی سنسٹائز کیا گیا اور آج خواتین کے لباس کے ساتھ دوپٹہ اتنا غیر ضروری ہوگیا ہے کہ شاذ ہی کوئی برانڈ سوٹ کے ساتھ دوپٹہ شامل کرتا ہے۔
میں اشفاق ستی کے معاملے پر بلخصوص بات کرنا چاہوں گا کیونکہ میں خود ایک اینکر ہوں اور اس معاملے پر بھی دو پارٹی بن چکی ہیں اور اپنی اپنی طرف سے عدالت بن کر فیصلہ بھی سنا دیا گیا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس چیز سے آپ معاشرے کو ڈی سنسٹائز کر رہے ہیں اور ایک وقت آئے گا جب ایسے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگا۔ اسی سوشل میڈیا کی عدالت کی وجہ سے اشفاق ستی نوکری سے معطل ہو چکا ہے اور ایک پارٹی اس پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے لیکن کوئی اس بات کو نہیں سوچ رہا کہ اس کے پانچ بچوں کا خرچ کون سی پارٹی اٹھائے گی۔
عورت کے حق کے لئے آواز اٹھانا کوئی بری بات نہیں لیکن اس بات کا بھی خیال رہے کہ کہیں جانے انجانے میں آپ پارٹی تو نہیں بن رہے اور جو آپ لکھ اور بول رہے ہیں اس کی وجہ کیا واقعی مظلوم کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔ کیونکہ آج نفرت کا بویا ہوا بیج کل تناور درخت بن جائے گا اور نتیجتاً عورت مرد پر اور مرد عورت پر سے اعتبار اٹھ جائے گا اور اس کے بعد ایک ایسا فیملی سسٹم جنم لے گا جو صرف کبھی بھی خوشحال نہیں ہوگا۔