Khan Kya Hamare Vote Se Jeeta?
خان کیا ہمارے ووٹ سے جیتا؟
خاکوانی صاحب ایک نفیس آدمی ہیں۔ صحافت کی دنیا میں اگر کوئی ایمانداری کی رمق باقی ہے تو "ہمیں است"۔ ایک نفیس اور ایماندار آدمی کا "صحافت" اور "کالم نگاری" کی دنیا میں ہونا بذات خود ایک اچنبھے کی بات ہے۔ مبادا یہ کہ ربع صدی سے ایک بے داغ شخصیت کے طور پہ جانے جائیں۔ اور ایک شریف النفس انسان کے طور پہ پہچانے جائیں۔
مجھے صحافت اور کالم نگاری کے بنیادی اصولوں سے چنداں واقفیت نہیں۔ نہ میں نے بطور طالبعلم یہ مضمون پڑھے ہیں۔ خاکوانی صاحب جیسے لوگوں کو پڑھ پڑھ ہم یہاں تبصرے اور کمنٹ کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ دو پیرا گراف سے زیادہ لکھنا پڑ جائے تو بالکل ویسے ہیں تیار ہونا پڑتا ہے جیسے "انجکشن" لگوانے سے پہلے بندہ اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔
تحریر شدہ اصولوں سے نابلد ہونے کی وجہ سے کچھ اصول اپنے ذہن میں ہیں جن پہ میں کسی دانشمند لکھاری کو وزن کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک "ایشو یا مسائل" پہ لکھنا اور اس کا حل پیش کرنے کی کوشش کرنا۔ شخصیات پہ لکھنے والے ہم جیسے عامی ہوتے ہیں دانشمند نہیں وہ شخصیت چاہے خاکوانی صاحب کی ہو، یا عمران خان جیسے بڑے لیڈر کی۔ خاکوانی صاحب ہمیشہ ایشوز پہ لکھتے ہیں، خوب لکھتے ہیں۔ میں ان کے "زنگار" کا عشروں سے قاری ہوں۔ فیس بک آئی تو ان کا فالوور رہا ہوں۔
کچھ عرصہ قبل ملکی حالات سے مایوس ہو کے انہوں نے شائد ضرورت سے زیادہ امیدیں ایک شخصیت سے لگا لیں۔ یہ بات ان جیسے باہوش اور تاریخ و سیاست کا علم رکھنے والی شخصیت کو جچتی نہیں تھی۔ ان کو یقینا علم ہو گا کہ کرشماتی رہنما مسائل حل نہیں کیا کرتے وہ نئی دنیا بناتے ہیں اور عموما نئی دنیا پرانی کی تباہی سے وجود میں آتی ہے۔ اگر خاکوانی صاحب اور ان جیسے اور صحافی یا دانشور ایک کرشماتی رہنما کی راہ تک رہے تھے تو پھر موجودہ "تباہی" کو نئی "دنیا " کا نقطہ آغاز سمجھیں۔ اور وہ اس رہنما سے امیدیں مزید بھی رکھ سکتے ہیں۔
خاکوانی صاحب جب اس محبت میں گرفتار ہوئے تو وہی ہو ا جو "نوخیز محبت" میں ہوتا ہے۔
"ہر جگہ تو ہی تو نظر آتا ہے"
ہر مسئلے کا حل ان کو ایک ہی شخصیت میں نظر آنے لگا۔ جیسے محبت میں ماں باپ، دوست، عزیز واقارب برے لگنے لگتے ہیں ویسے ہی خاکوانی صاحب کو بھی ہر دوسرا سیاستدان برا لگنے لگا اور ہمارے مسائل کی جڑ نظر آنے لگے۔ صرف "سیاستدان"۔ اور مسیحا صرف خان صاحب۔ لگتا ایسے تھا کہ ہر مسئلے کا حل ایک ہی شخصیت کے پاس ہے۔ اگر مسئلے کا حل اس کے پاس نہیں ہے تو بھی "بے داغ"، "محنتی" اور "ایماندار" تو ہے ناں۔ ایک چانس تو اس کا بنتا ہے۔
اس سب میں کوئی برائی نہیں، اگر آپ اپنی پسند کو اپنی تحریر کا حصہ نہ بننے دیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جب آپ کی محبت اپنے ہی مسائل کے حل سے بھی اہم ہو جائے۔ آپ کو اپنے محبوب کی بونگی حرکتوں پہ پیار آنے لگے۔ جب آپ کو کرپشن کے نام پہ ہونے والے سیاسی انتقام پہ اندھا اعتماد ہو نے لگے۔ جب آپ کو اسی کرپشن کی "ماں" اپنے پیارے کو جہازوں میں گھماتی بری نہ لگے۔ جب آپ کو ڈیڑھ سو ارب کے منصوبے کی تکمیل میں ناکامی کسی کی انتظامی صلاحیتوں کا شاہکار لگنے لگے۔ تو پھر آپ سمجھ جائین کہ آپ دانشور کی کیٹیگری سے نکل کہ ایک "پوسٹر بوائے" کے "فین" کی کیٹگری میں پہنچ گئے ہیں۔
چلیں یہاں تک بھی کوئی نہیں۔ دانشمندی، صحافت، کالم نگاری گئی تیل لینے۔ آپ کو ایک شخصیت سے محبت ہے اس کے لئے دنیا چھوڑ دیں۔ ہم عاشق کے طور پہ آپ کی عزت کریں گے۔ لیکن مسئلہ تو یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ اب آپ کو اپنی "لیلی" کے بدصورت ہونے کا ہلکا سا احساس ہونے لگا ہے۔ تو کوئی آپ سے یہ کہنے کا حق بھی نہیں رکھتا کہ بھائی آپ ہی تو ہمیں اس کے "حسن" کی داستانیں سناتے تھے۔ آپ ہی تو غول کے غول اس حسین کی گلی میں لانے کا ایک سبب ہیں۔ آپ ہی تو لوگوں کو وعظ فرماتے تھے کہ اگر سچا پیار کہیں ملنا ہے تو یہیں سے ملنا ہے۔
کیا اب یہ کہنے کی جرات بھی آپ سے کوئی نہ کرے۔ اگر یہ ذاتی رائے تھی تو اسے اخبار کے پنوں کی زینت کیوں بنایا۔ اگر اس ذاتی رائے پہ داد سمیٹی تو اب تنقید سے مسئلہ کیوں؟؟ آپ رائے رکھتے ہیں ہم اس پہ تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو تنقید پہ غصہ آرہا ہے تو اس کی وجہ ہمارا "لیلی" کو "کالا" کہنا نہیں بلکی لیلی کا "کالا" ہونا ہے۔ غصہ آپ کی آنکھوں پہ ہے کہ آپ اس کا "کالاپن" وقت پہ دیکھ نہ سکے۔ اور باقی لوگوں کو اس کے "حسن" کی جھوٹی داستانیں سنا کے "ایکسائٹ" کرتے رہے۔
برائے مہربانی ہم پہ غصہ نہ کریں۔ آپ نے ایک رائے کی تشہیر کی۔ شو مئی قسمت وہ غلط تھی۔ اس تشہیر کے نتیجے میں جو ایمان لائے وہ جہنم میں جا پہنچے۔ وہ جہنم ہم بھی ساتھ بھگت رہے ہیں اور ہم آپ کو یہ کہنے کا حق بھی نہیں رکھتے کہ
بھائی آپ کی تشہیر کا بھی حصہ ہے اس جہنم کی آگ بھڑکانے میں۔