Shaam Nama
شام نامہ
شام میں میرے دوستوں نے مجھے تین دن پہلے یہ خبر دے کر حیران و پریشان کردیا تھا کہ شامی افواج کے متعدد افسران نے شام سے راہ فرار اختیار کرکے او اے ای میں پناہ لے لی ہے۔ بشار الاسد کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں؟ میرے ایک کلاس فیلو جو دمشق کی سرکاری یونیورسٹی میں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور کمیونسٹ پارٹی شام کے رکن ہیں نے بتایا تھا کہ ان کی پارٹی اپوزیشن میں ہونے کے باوجود باغیوں سے مل کر اتحادی حکومت مین شریک نہیں ہوگی کیونکہ حیات التحریر الشام کے سربراہ بارے انہیں یقین ہے کہ وہ عالمی سامراج امریکہ کی پراکسی ہے اور اس کے سعودی عرب، ترکی کی حکومتوں سے بھی گہرے روابط ہیں۔
حیات التحریر الشام کا سربراہ سعودی عرب میں پیدا ہوا اور وہ القاعدہ میں شامل رہا اور اس کے داعش کے سربراہ البغدادی سے بھی روابط رہے۔ یہ گروپ بعد ازاں شام میں امریکی پراکسی بن گیا- حالیہ پیش رفت کے پیچھے سابق امریکی انتظامیہ کے سربراہ جوئے بائیڈن اور ڈیموکریٹس کا دماغ کام کر رہا ہے جو جاتے جاتے یہ کام دکھا گئے ہیں۔ شامی دوستوں کا خیال ہے کہ ان کے روسی دوستوں نے بتایا ہے کہ شام میں بشار الاسد رجیم کے گرنے میں ایرانی رجیم کے حزب اللہ کے زریعے سے کیے جانے والے مس ایڈونچر کا بھی ہاتھ ہے۔
شام میں باغی افواج نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں صدر بشار الاسد کا طویل عرصے سے جاری اقتدار ختم ہوگیا ہے۔ بشار الاسد ملک سے فرار ہو چکے ہیں، تاہم ان کی موجودہ مقام کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ باغیوں کی تیز رفتار پیش قدمی کے دوران حلب، حمص اور حما جیسے اہم شہر بھی ان کے کنٹرول میں آ گئے ہیں۔ اس پیش رفت کے بعد شام میں مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کی تقسیم اور استحکام کے حوالے سے چیلنجز درپیش ہیں۔ بین الاقوامی برادری اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، خاص طور پر اس لیے کہ باغیوں میں کچھ گروہ دہشت گرد تنظیموں سے منسلک ہیں۔ شام کے پڑوسی ممالک، بشمول اسرائیل، اردن، عراق اور لبنان، ممکنہ اثرات کے پیش نظر اپنی سرحدوں پر حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں۔
شامی مسلح اپوزیشن نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا ہے اور صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ حیات تحریر الشام کے کمانڈر، ابو محمد الجولانی، نے اعلان کیا ہے کہ تمام ریاستی ادارے سابق وزیر اعظم محمد غازی الجلالی کی نگرانی میں رہیں گے جب تک کہ وہ باضابطہ طور پر منتقل نہیں ہو جاتے۔ یہ اعلانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب اپوزیشن گروپوں نے ایک تیز رفتار حملے میں کئی شہروں پر قبضہ کر لیا۔ قطر، سعودی عرب، اردن، مصر، عراق، ایران، ترکی اور روس نے رات کے اوائل میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں اس بحران کو ایک "خطرناک پیش رفت" قرار دیا اور سیاسی حل پر زور دیا۔