Mazhab Aur Aqal, Marboot Aur Jaame Mukalma
مذہب اور عقل، مربوط اور جامع مکالمہ
آج ہم تاریخ کے عظیم ترین فلسفیوں میں سے ایک، عمانوئل کانٹ کے تین سو سالہ جنم کا جشن منا رہے ہیں۔ کانٹ، جو جدید فلسفے کے ستونوں میں سے ایک ہیں، نے اپنے نظریات سے عقل، اخلاقیات اور انسانی آزادی کے تصور کو ایک نئی جہت دی۔ اس خاص موقع پر، فلسفے کی دنیا کی دو اور اہم شخصیات، جی ڈبلیو ایف ہیگل اور کارل مارکس، بھی اس فکری مکالمے میں شامل ہو رہی ہیں۔
یہ تین فلسفی، جن کے خیالات انسانی تاریخ، سماج اور شعور کی تشکیل میں نمایاں رہے ہیں، آج ایک ساتھ بیٹھے ہیں تاکہ مذہب، عقل اور آزادی جیسے گہرے موضوعات پر اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کریں۔
عمانوئل کانٹ: عقل اور اخلاقیات کے ایک محافظ، جنہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ہم کیا جان سکتے ہیں، کیا کر سکتے ہیں اور کیا امید رکھ سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب اخلاقی اصولوں کی تکمیل ہے اور انسانی آزادی کی بنیاد عقل ہے۔
ہیگل: جدلیاتی فلسفے کے معمار، جو تاریخ اور شعور کو ایک مسلسل ترقی پذیر عمل سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق مذہب انسانی روح کا ایک جدلیاتی مرحلہ ہے، جو آزادی اور خود شعوری کی اعلیٰ ترین شکل تک پہنچنے میں مدد کرتا ہے۔
کارل مارکس: سماجی انقلاب کے علمبردار، جنہوں نے فلسفے کو مادی دنیا کی جدوجہد سے جوڑ دیا۔ ان کے لیے مذہب محض ایک نظریاتی پردہ ہے، جو انسان کو حقیقی آزادی اور سماجی انصاف سے دور رکھتا ہے۔
یہ مکالمہ نہ صرف تین فلسفیوں کے خیالات کے تصادم کا اظہار ہے، بلکہ فلسفے کے تین مختلف ادوار اور نقطۂ نظر کو بھی سامنے لاتا ہے:
کانٹ کی ماورائی اخلاقیات
ہیگل کی روحانی جدلیات
اور مارکس کی مادی جدلیات
اس فکری نشست میں، یہ تینوں فلسفی مذہب اور عقل کے باہمی تعلق پر اپنی بصیرتوں کا اظہار کریں گے۔ ان کے درمیان بحث صرف ماضی کے لیے نہیں، بلکہ ہماری موجودہ دنیا اور مستقبل کے سوالات کے لیے بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
مکالمے کا آغاز:
تصور کریں ایک فکری مجلس، جہاں کانٹ اپنی اخلاقیات کی بات کرتے ہیں، ہیگل جدلیاتی روح کی وضاحت پیش کرتے ہیں اور مارکس سماجی انقلاب کی بات کرتے ہوئے دونوں کے نظریات کو چیلنج کرتے ہیں۔ یہ مکالمہ نہ صرف فلسفیانہ بصیرت کا تبادلہ ہے، بلکہ انسانی فکر کی گہرائیوں کو جانچنے کا ایک منفرد موقع بھی ہے۔
کانٹ:
عقل کا سب سے بڑا کام اخلاقی اصولوں کو دریافت کرنا ہے، جو انسانی آزادی کی بنیاد ہیں۔ میرے نزدیک، مذہب ان اصولوں کو عملی شکل دیتا ہے اور انسان کو اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے تابع کرتا ہے۔ مذہب کی جڑیں انسانی عقل میں ہیں اور یہ ایک اخلاقی تقاضا ہے کہ ہم خدا، روح اور ابدیت کو فرض کریں، کیونکہ ان کے بغیر اخلاقی قوانین بے معنی ہو جاتے ہیں۔
ہیگل:
کانٹ، تم نے مذہب کو محض اخلاقیات کی ایک شاخ بنا دیا، لیکن یہ انسانی شعور کی سب سے بلند سطح ہے۔ مذہب عقل کی جدلیاتی ترقی کا ایک اہم مرحلہ ہے، جو انسان کو اپنی ذات اور کائنات کے بنیادی اصولوں کے شعور تک لے جاتا ہے۔ خدا، جیسا کہ میں دیکھتا ہوں، مطلق روح کا اظہار ہے اور مذہبی تجربہ عقل کے ذریعے ہی مکمل ہوتا ہے۔ تمہارا نظریہ مذہب کی جدلیاتی اہمیت کو محدود کرتا ہے اور اسے انسان کی تاریخی شعور کی ترقی سے الگ کر دیتا ہے۔
مارکس:
تم دونوں کی باتیں سن کر لگتا ہے جیسے مذہب انسانی زندگی کا مرکز ہو، لیکن تم حقیقت سے کتنا دور ہو! کانٹ، تمہاری "اخلاقی عقل" اور "ماورائی اصول" انسانی جدوجہد کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اخلاقی اصول مادی حالات اور سماجی ضروریات سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ کسی ماورائی عقل سے۔ مذہب، جسے تم اخلاق کا ذریعہ سمجھتے ہو، دراصل طبقاتی استحصال کو دوام دینے کا ایک آلہ ہے۔ یہ انسان کو اس کی حقیقی آزادی سے دور رکھتا ہے۔
کانٹ:
مارکس، تم مذہب اور اخلاقیات کو مادی حقیقت کا پابند بنا کر ان کی آفاقیت کو ختم کر دیتے ہو۔ اگر مذہب محض سماجی حالات کی پیداوار ہے، تو کیا اخلاقی اصول وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے رہیں گے؟ تمہارے مادی نظریے میں انسانی ضمیر کی کیا اہمیت ہے؟ انسان اپنی عقل کے ذریعے ماورائی اصولوں تک پہنچ سکتا ہے اور یہی اس کی آزادی کی بنیاد ہے۔
ہیگل:
مارکس، تم مذہب کو صرف طبقاتی استحصال کا آلہ سمجھتے ہو، لیکن یہ جدلیاتی عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ مذہب انسانی شعور کو نئے امکانات کی طرف کھولتا ہے اور تضادات کے ذریعے ترقی کرتا ہے۔ تمہارا مادی نظریہ مذہب کی تاریخی اور روحانی اہمیت کو نظرانداز کرتا ہے۔ اگر مذہب واقعی استحصال کا ذریعہ ہوتا، تو وہ جدلیاتی عمل کے ذریعے زوال پذیر کیوں نہ ہوگیا؟
مارکس:
کانٹ، تمہارا "ماورائی اصول" انسانی جدوجہد کو دھندلا دیتا ہے۔ اخلاقیات مادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں اور حقیقی آزادی تبھی ممکن ہے جب سماجی اور معاشی حالات بدلیں۔ تم کہتے ہو کہ مذہب اعلیٰ مقاصد کی طرف لے جاتا ہے، لیکن کیا یہ مقاصد ہمیشہ حکمران طبقے کے مفادات کو سہارا نہیں دیتے؟
مارکس (ہیگل کی طرف):
ہیگل، تم جدلیات کو مذہب کے دفاع میں استعمال کرتے ہو، لیکن یہ حقیقت سے کٹ چکی ہے۔ مذہب مظلوم انسانیت کا عکس ہے، جہاں انسان اپنی حقیقی طاقت کو کسی خارجی وجود میں منتقل کر دیتا ہے۔ مذہب نے ہمیشہ حکمران طبقے کو سہارا دیا ہے۔ تمہاری "مطلق روح" اور "روحانی ترقی" محض فلسفیانہ فریب ہیں جو مادی حقیقت کو چھپاتے ہیں۔
کانٹ:
مارکس، تمہارے نظریے میں انسان صرف ایک مادی وجود بن کر رہ جاتا ہے۔ کیا تم واقعی یہ مانتے ہو کہ مادی حالات انسانی عظمت کے تمام پہلوؤں کو بیان کر سکتے ہیں؟ کیا تم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسانی اخلاقی ضمیر کسی ماورائی حقیقت کا ثبوت ہے، جو اسے مادی حالات سے بلند کرتی ہے؟
ہیگل:
مارکس، تمہاری تنقید میں تضادات ہیں۔ تم جدلیات کو مانتے ہو، لیکن اسے مادی حدود تک محدود کر دیتے ہو۔ مذہب شعور کی جدلیاتی ترقی کا ایک مرحلہ ہے، جو انسان کو آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔ تم مذہب کو ختم کرنے کی بات کرتے ہو، لیکن تمہارے مادی تضادات بھی ایک روحانی اصول کی ضرورت کا اظہار کرتے ہیں۔
مارکس (اختتامیہ):
تم دونوں فلسفی مذہب کے ذریعے انسان کو خیالات کی دنیا میں قید رکھتے ہو۔ تمہاری عقل اور جدلیات محض حکمران طبقے کے نظریاتی ہتھیار ہیں، جو سماجی انقلاب کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ مذہب کا خاتمہ کیے بغیر انسان اپنی حقیقی آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔ عقل کا مقصد سماجی اور مادی حقیقت کو سمجھنا اور تبدیل کرنا ہے، نہ کہ خیالی اصولوں کا دفاع۔
***
یہ مربوط مکالمہ کانٹ، ہیگل اور مارکس کے درمیان مذہب اور عقل پر گہرے اور متنوع خیالات کو پیش کرتا ہے۔ کانٹ کی اخلاقیات، ہیگل کی جدلیات اور مارکس کی مادی تنقید ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہیں، لیکن اس تصادم سے قاری کے لیے ایک جامع فلسفیانہ بحث ابھرتی ہے۔