Kya Kiya Jaye?
کیا کیا جائے؟
اس ملک میں سیاست، سیاسی جماعتوں پر بڑے، درمیانے اور چھوٹے سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اور سب جماعتیں ان کے ہی مفادات کی سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ مفادات عالمی سامراجی سرمایہ دار طاقتوں اور کمپنیوں کی اجارہ داری کے ماتحت رہ کر کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقات اور ان طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو اس "سیاست" سے زرا بھر دلچسپی نہیں ہے۔
محنت کش طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام کی بعض پرتیں ریاست کے اشرافیائی طرز حکمرانی کے خلاف اپنے چند فوری مطالبات کے تحت ریاست کے خلاف ازخود تحریکیں چلاتی ہیں اور کبھی انہیں جزوی کامیابی ملتی اور کبھی وہ بدترین ریاستی جبر کے زریعے کچلی جاتی ہیں۔ لیکن اس ملک کی کم و بیش سب ہی سیاسی جماعتیں نہ تو سامراجی سرمائے کے غلبے، تسلط اور جبر کے خلاف کہیں سامنے آتی ہیں نہ وہ مقامی سرمایہ داراوں، بڑے زرعی قطعات اراضی کے مالکان، فوجی جنتا کی استحصالی لوٹ کھسوٹ اور اس کے خلاف ہونے والی مزاحمت کے خلاف استعمال ہونے والے ریاستی جبر اور تشدد کے خلاف سامنے آتی ہیں۔
بلوچستان میں چل رہی قومی مزاحمتی تحریک ہو یا خیر پختون خوا میں جنگوں اور وسائل کی بدترین لوٹ کھسوٹ کے خلاف اٹھنے والی پشتون تحریک ہو یا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں عوامی تحریکیں ہوں یا پھر پنجاب میں ینگ ڈاکٹروں، نرسوں، لیڈ ہیلتھ ورکرز، اساتذہ کی حقوق کی تحریکیں ہوں، کسانوں کی مزاحمت ہو، کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ اور شاملاٹ زمینوں پر قبضے کی آڑ میں عوام کا قتل عام ہونے کے خلاف احتجاج ہو کوئی سیاسی جماعت اپنے کارکنوں کو ان کا ساتھ دینے کا نہیں کہتی۔ سب کی سب محنت کشوں پر ہونے والے حملوں اور ان کے زبردست معاشی استحصال میں برابر کی شریک ہیں۔ ان جماعتوں کے بچھےکچھے سیاسی کارکن کم اور اپنی سرمایہ دار قیادت کے اندھے عقیدت مند اور پچاری زیادہ نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں جن سیاسی جماعتوں نے ماضی میں کبھی محنت کش طبقات کے استحصال کے خلاف اور مظلوم اقوام کے عوام پر قومی جبر کے خلاف مزاحمتی سیاست کا علم بلند کر رکھا تھا وہ اب اپنے عمل اور قول دونوں سے سرمایہ دار جماعتوں میں بدل چکی ہیں۔ عالمی سامراجی اداروں کی غلامی کر رہی ہیں اور ان کی پہلے اور دوسرے درجے کی قیادت بڑے اور چھوٹے سرمایہ داروں یا سمجھوتہ باز پیٹی بورژوازی اور محنت کیے بغیر کرایوں پر زندگی بسر کرنے والی طفییلہ پن کا شکار اشرافیہ پر مشتمل تھی جن کا کردار عوام دشمنی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی عوام دوست سیاست کب کی ختم ہوچکی ہے۔ ان کے ميڈیا اور سوشل میڈیا پر وکلائے صفائی ان کی ماضی میں پاپولر سوشلسٹ نعرے بازی کی تاریخ کی جگالی کرکے ان کے حال میں عوام دشمن کردار کو چھپانا چاہتی ہے۔
ایسے میں عوامی طبقات تنگ آمد بجنگ آمد خود اپنی لڑائی لڑتے ہیں اور یہ لڑائی اس لیے کسی ہمہ گیر تحریک میں نہیں بدلتی کہ ان کے پیچھے نہ تو انقلابی محنت کش طبقے کی پیشہ ور انقلابی سیاسی کارکنوں پر مشتمل کوئی سیاسی جماعت ہوتی ہے اور نہ وہ اس لڑائی کو "انقلاب" تک لیجانے کا شعور رکھتے ہیں۔ ایسے میں ترقی پسند انقلابی سیاسی شعور رکھنے والے نوجوان کارکنوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ملک میں بائیں بازو کی انقلابی سیاسی تنظیم کی تعمیر کی طرف قدم بڑھائیں۔
میں پاکستان میں حال ہی میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی۔۔ آر سی پی کے قیام کو محنت کش طبقے کی سیاست کی تعمیر کے درست سمت میں اٹھائے ہوئے قدم کے طور پر دیکھتا ہوں۔ یہ پاکستان بھر کے ان نوجوانوں کے لیے درست سیاسی سمت کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جو موجودہ سیاسی – معاشی نظام اور اس ریاست کے سخت طبقاتی و اشرافیائی کردار کو پہچان چکے ہیں اور موجودہ ریاستی ساخت ان کے سامنے کھل کر آچکی ہے جس میں سوائے جبر و تشدد اور لوٹ مار کا تحفظ کرنے کے اور کوئی صلاحیت نہيں ہے۔
ان نوجوانوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ موجودہ نظام میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان کوئی ایسا سمجھوتہ طے پاسکتا ہے جس سے ان کے مسائل کا کوئی حل نکلتا ہو۔ سوائے موقعہ پرستوں، غلام و شکست خوردہ ذہنیت کے شکار سیاسی کارکنوں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور کیریرسٹ نوجوانوں کے کسی کو اس نظام میں رہتے ہوئے نجات کی کوئی امید ہے۔ یہ شکست خوردہ مینجر ٹائپ دلال درمینے طبقے کے لبرل دانشور "سیاست" کے جتنے مرضی بقراط بنیں اور اشتراکی انقلاب کو یہ جتنا مرضی "ازکار رفتہ" قرار دیں انہیں محنت کش طبقے کے نوجوان آخر میں جوتے ہی ماریں گے۔
درمیانے طبقے کا ہر وہ دانشور دیہاڑی باز، کیرئرسٹ، داؤ باز اور اشرافیہ کے قبضے میں موجود دولت سے حصّہ داری کا طلبگار ہی کہلائے گا جو سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کی سرمایہ دار قیادت کا وکیل صفائی ہو اور انہیں عوامی جمہوریت کا علم بردار بتاتا ہو۔ ہر وہ دانشور فراڈیا اور بہروپیا ہے جو عالمی مالیاتی اداروں، فوجی جرنیل شاہی، سرمایہ دار کارٹیلز، زرعی سرمایہ دار اشرافیہ کے مفادات کے گرد بننے والی حکومتی پالیسیوں سے عوام کو امیدیں باندھنے کا مشورہ دیتا ہو۔
آج انقلابی دانش کو پرکھنے کا سب سے بڑا معیار ہی یہ ہے کہ کون سا دانشور موجودہ ریاستی نظام کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور اس نظام کے اندر رہ کر سیاست کرنے والوں سے قطع تعلق کرتا ہے۔ درمیانے طبقے کا وہ لکھاری، شاعر، ادیب، صحافی، وکیل، سیاسی کارکن، مزدور رہنما، کسان لیڈر، طالب علم رہنمآء اور استاد بے ایمان، فراڈیا، رجعت پرست ہے جو نیو لبرل اکنامی کی حمایت کرتا ہے، موجودہ ریاستی نظام کے اندر رہ کر وہ عوام کی تقدیر بدل جانے پر یقین رکھتا ہے۔ درمیانے طبقے کا ہر وہ دانشور پاکھنڈی اور فراڈیا ہے جو خود کو ترقی پسند، بائیں بازو سے وابستہ ہونے کا دعوے دار ہو اور وہ اشتراکی انقلاب پر یقین نہ رکھتا ہو اور محنت کش طبقات کوسرمایہ دار جماعتوں کے پیچھے لگانے کی کوشش کرتا ہے۔
انقلابیت اور ترقی پسندی کا سیاست میں سب سے پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ سرمائے اور محنت کے درمیان ناقابل حل، ناقابل مصالحت تضاد کو تسلیم کرتے ہوئے قوت محنت بیجنے والے محنت کشوں کو انقلاب کا ہر اول دستہ تسلیم کیا جائے۔ جو شخص تبدیلی کا فریضہ کسی سرمایہ دار، جاگیردار، ملاں، جرنیل، بے وردی افسر، ٹیکنوکریٹ کے پاس بتاتا ہو وہ نہ انقلابی ہے نہ ترقی پسند ہے وہ استحصال اور جبر کرنے والوں کا غلام اور دلال ہے۔ اس صاف شفاف الجھاؤ سے پاک شعور کے ساتھ ہی انقلابی ترقی پسند سیاست کا آغاز ہوسکتا ہے۔
طبقاتی سوال کو سیاست و معشیت کا بنیادی سوال تسلیم نہ کرنے والے، دیگر سوالات کو اس بنیادی سوال کے تابع نہ کرنے والے اور مختلف و متضاد طبقات کو شامل کرنے والی جماعتوں کی سیاست سے وابستہ ہونے والے نہ صرف محنت کش طبقے کی نجات کے دشمن ہیں بلکہ وہ قومی، نسلی، مذہبی صنفی و لسانی جبر کا شکار عوام کے بھی دشمن ہیں اور ان کی ان تمام قسم کے جبر سے نجات کا کوئی پروگرام ان کے پاس نہیں ہے۔
پاکستان میں استحصال اور ہر قسم سے جبر سے نجات کی سیاست کا راستا ایک ہی ہے اور وہ ہے موجودہ سرمایہ دار ریاست کو محنت کش طبقے کے انقلاب کے زریعے محنت کش ریاست کا قیام۔ جو سیاست اس راستے سے انحراف پر مبنی ہے وہ حکمران اشرافیہ کے قبضے، ان کی لوٹ کھسوٹ، جبر و استحصال کو باقی رکھنے کی سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اس لیے کیا کیا جائے؟ سوال کا ایک ہی جواب ہے محنت کش طبقے کی سیاسی جماعت کی تعمیر کی جائے جس کی منزل موجودہ سرمایہ دار ریاست کو اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ مزدور ریاست کا قیام ہو۔