Saturday, 14 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Bahauddin Zakariya University Multan Ka Shoba Saraiki

Bahauddin Zakariya University Multan Ka Shoba Saraiki

بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا شعبہ سرائیکی

بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں 2001ء میں سرائیکی ریسرچ سنٹر کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا ڈائریکٹر شعبہ اردو کے اس وقت کے سربراہ ڈاکٹر انوار احمد کو مقرر کیا گیا۔ اس تقرری پر سرائیکی وسیب کے شاعروں اور ادیبوں نے اعتراض اٹھایا لیکن اسے کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ ڈاکٹر انوار احمد نے اس دور میں جو کتابیں شایع کیں وہ اردو زبان میں تھیں۔ پھر شعبہ سرائیکی مئی 2006ء میں قائم ہوا۔ اس وقت بھی اس شعبے کے سربراہ کو اردو شعبے سے ہی لیا گیا۔ اس شعبے کے سربراہ پروفیسر علمدار بخاری کو بنایا گیا جو کہ شعبہ اردو سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ ایک بار پھر اس تقرریی پر اعتراض اٹھایا گیا۔ اس وقت یہاں سے سرائیکی میں ایم اے کی کلاسز کا اجراء کیا گیا۔ اگلے چار سال تک اس شعبے میں کوئی حاص ڈویلپمنٹ دیکھنے کو نہیں ملی۔ نہ ہی اس شعبے کو غیر معمولی فنڈز فراہم کیے گئے۔

2010ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر کی منظوری دی اور یوں ان دونوں کے لیے ایک نئی عمارت کے قیام کے لیے پہلی مرتبہ 30 کروڑ روپے کی گرانٹ بھی جاری کی۔ اس کے بعد شعبہ سرائیکی میں پہلی بار بی ایس سرائیکی، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کورسز کا اجراء ہوا۔ سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعد سے لیکر اب تک اس شعبے کو نہ تو وفاقی حکومت نے اور نہ ہی صوبائی حکومت نے کوئی قابل زکر گرانٹ جاری کی اور نہ ہی اس یونیورسٹی میں بعد میں آنے والے وائس چانسلر صاحبان نے اس شعبے کی مزید ترقی پر کوئی توجہ دی۔

اس وقت سرائیکی شعبے کی چئیرپرسن اور سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نسیم اختر ہیں جو سرائيکی شعبہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی پہلی پی ایچ ڈی سرائیکی ہیں۔ ان کا تعلق بھی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ہے اور انھوں نے پی ایچ ڈی 2007ء میں کی تھی۔ انکی تقرری بھی تنازعے سے خالی نہیں رہی۔ ان پرسب سے بڑا اعتراض تو یہ ہے کہ اپنی تقرری کے وقت ان کا کوئی ایک بھی تحقیقاتی مضمون سرائیکی زبان و ادب بارے کسی بھی بین الاقوامی تحقیقاتی جریدے یا رسالے میں شایع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی انہیں سرائیکی مضمون پڑھانے کا 10 سالہ تجربہ تھا جبکہ ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کے لیے ایچ ای سی سے مںظور شدہ جرائد میں 10 ریسرچ پیپرز کی اشاعت اور 10 سالہ تدریسی تجربہ ہونا لازمی ہے۔

ڈاکٹر نسیم اختر آج کل ایک بار پھر سرائیکی وسیب کے شاعروں، دانشوروں، ادیبوں، ماہر سرائیکی لسانیات کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ اس تنقید کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ڈاکٹر نسیم اختر نے وائس چانسلر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کو ایک تحریری درخواست دی جس میں سرائیکی شعبہ کی ایم فل کی طالبہ مدیحہ عباس اور ان کے شوہر کاشف مظہر پر انہیں ہراساں کرنے، دھمکانے اور ان کے دفتر میں آکر ان سے بدتمیزی کرنے کی شکایت کی گئی اور ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔

اس درخواست کی خبر اگلے دن ایک ابار میں شایع ہوئی تو سرائیکی خطے کے معروف شاعر و ناول نگار رفعت عباس نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنا ایک تحریری بیان بھیجا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ کہ ان کی بیٹی مدیحہ عباس بی زیڈ یو ملتان کے شعبہ سرائیکی میں ایم فل کی طالبہ ہیں اپنے سسر کی وفات کے سبب ایک سمسٹر کی فیس بر وقت جمع نہ کرا پائی تھیں۔ انہیں ڈاکٹر نسیم اختر نے نوٹس کے زریعے تنبہ کی کہ اگر فیس جمع نہ کرائی گئی تو ان کا ایم فل میں داخلہ منسوخ کردیا جائے گا۔ یہ نوٹس ملنے کے بعد مدیحہ عباس کے شوہر کاشف مظہر ڈاکٹر نسیم اختر کے دفتر میں 20 اکتوبر 2024ء کو گئے۔ انھوں نے فیس جمع کرانے میں ہونے والی تاخیر کا سبب بیان کیا لیکن ڈاکٹر نسیم اختر نے اس عذر کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس دوران ان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔

رفعت عباس کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ جب ان کے اور ان کی بیٹی کے نوٹس میں آیا تو انھوں نے کاشف مظہر سے باقاعدہ معذرت کرائی اور اس وقت ڈاکٹر نسیم اختر نے بھی بظاہر ان کی معذرت قبول کرلی۔ لیکن اس کے بعد ڈاکٹر نسیم اختر نے مدیحہ عباس کو ذہنی اذیت دینا شروع کردیا۔ انہیں اس شعبے کے کلرک کے زریعے ڈرایا، دھمکایا جانے لگا۔ رفعت عباس کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی نے اس سے قبل بھی ان سے ڈاکٹر نسیم اختر کے ناروا سلوک کی شکایت کی تھی۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو صبر اور برداشت سے کام لینے کو کہا اور پھر ڈاکٹر نسیم نے اکتوبر 20 کو ہوئے واقعہ کو بنیاد بنکر وی سی کو ان کے داماد اور بیٹی کے خلاف ہراسانی کی درخواست دے ڈالی۔ رفعت عباس کا موقف ہے کہ معذرت قبول کرلینے کے بعد اس درخواست کا دینا بدنیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی مدیحہ عباس تو 20 اکتوبر والے واقعے میں کسی طور ملوث نہ تھی اور نہ اس نے کبھی ڈاکٹر نسیم اختر سے کوئی بدسلوکی کی تھی۔ ان کا نام درخواست میں شامل کرنا بھی سراسر بدنیتی پر مبنی ہے۔

رفعت عباس کا یہ بیان اگلے دن ملتان سے شایع ہونے والے اکثر اخبارات میں شایع ہوا اگرچہ اس میں ڈاکٹر نسیم اختر کا موقف شایع نہیں کیا گیا تھا۔ میں نے انکا موقف شایع نہ ہونے پر خبر کی اس شکل کو صحافتی اخلاقیات کے خلاف قرار دیا اور پھر اسی دن شام کے وقت میں نے ان کا وٹس ایپ نمبر حاصل کیا اور انہیں یہ مسیج ارسال کیا:

"امید ہے، آپ خیر خیریت سے ہوں گی۔ میں روزنامہ قوم ملتان کا جوائنٹ ایڈیٹر ہوں اور قائم مقام ایڈیٹر کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہوں۔

آج کی اشاعت میں چند اخبارات اور ڈیجیٹل نیوز سائٹ پہ پروفیسر رفعت عباس کا ایک بیان شایع ہوا ہے۔ میں بطور ایڈیٹر اپنا یہ فرض سمجھتا ہوں کہ اس پر شعبہ سرائیکی بی زیڈ یو کی ڈائریکٹر کا موقف اور ان سے اس حوالے سے تفصیلی بات سامنے آنی چاہیئے۔

ہمارے اخبار کے ایجوکیشن رپورٹر نے کل جو نیوز فائل کی وہ نہ صرف نامکمل تھی بلکہ اس میں آپ کا موقف بھی نہیں تھا۔ کل میرا بھی آف ڈے تھا اور ہمارے چیف ایڈیٹر بھی کل ناگزیر وجوہات بھی موجود نہ تھے جس کے سبب یہ نامکمل نیوز اخبار میں شایع ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے آپ کا پورا موقف ہمیں میسر آئے تاکہ ہم اسے پڑھنے والوں کو گوش گزار کرسکیں۔

میں نیوز آپ کو بھجوانے رہا ہوں، آپ اسے دیکھ لیں"۔

میں نے انہیں اخبار کے چیف ایڈیٹر "میاں عبدالغفار" صاحب کو "ناقص" خبر شایع ہونے پر بھجوایا گیا نوٹ بھی ارسال کیا اور اس پر میاں صاحب کا وائس میسج بھی فاروڈ کیا۔ ہمارے رپورٹر نے شوکاز نوٹس کے جواب میں بتایا کہ یہ خبر انہیں اس وقت ملی تھی جب وہ اپنے سسر کے جنازے پر تھے اور انھوں نے ڈاکٹر نسیم اختر کو کال کی تھی لیکن انھوں نے فون نہیں اٹھایا تھا اور رات گئے تک جواب نہ موصول ہونے پر انہوں نے خبر فائل کردی۔

اس پر ڈاکٹر نسیم اختر نے مجھے جواب دیا "حسینی صاحب اتنی بڑی خبر لگانے کے بعد تصدیق فرما رہے ہیں۔ آپ میں اور خبر لگوانے والوں میں کچھ زیادہ فرق تو نہیں"۔

میں نے انہیں جواب میں یہ نہیں کہا کہ انھوں نے ہمارے رپورٹر کی کال پر فون نہیں اٹھایا تھا بلکہ ان کی بات کو بڑی کرکے ان سے کہا کہ وہ اپنا تفصیلی موقف ارسال کریں یا ایک انٹرویو دے دیں۔ اس پر انہوں نے لکھا "آپ کا کیا خیال ہے جس طرح خود خبر لگوا کر مہم جوئی کی جا رہی ہے اس کو ہراساں کرنا نہیں کہتے، یہی کافی نہیں۔ ورنہ ان کے داماد نے شعبے میں آ کر جو طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا اس دن تو 10 اکتوبر تھی"۔

میں نے انہیں کہا کہ اخبارات کو آپ کا موقف بھی دینا چاہئیے تھا اور اگر رفعت عباس ویسا کر رہے ہیں جیسا آپ کہہ رہی ہیں تو یہ فیورٹ ازم ہے اور بظاہر "ہراسانی" کے زمرے میں آتا ہے اور میں نے انہیں اس کے بعد ایک سوال نامہ انہیں بھجوایا اور ان کے جواب دینے کی درخواست کی اور پھر سوشل میڈیا پر ان کی کارکردگی بارے اٹھنے والے اعتراضات انہیں بھجوائے اور ان سے موقف معلوم کرنا چاہا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر انھوں نے تین دن گزرنے کے بعد بھی کوئی موقف نہیں دیا جبکہ بلیو ٹک بتا رہا تھا کہ وہ یہ تمام وٹس ایپ پیغامات پڑھ چکی ہیں۔

میں نے اس دوران یونیورسٹی اور ان کے ڈیپارٹمنٹ کے دو چکر لگائےاور اپنے طور پر وہاں زیر تعلیم طلباء و طالبات سے گفتگو بھی کی۔ اس گفتگو کے نتائج یہ تھے کہ کسی ایک طالب علم یا طالبہ نے ڈاکٹر نسیم اختر کے بطور سربراہ اور بطور استاد تعریف کا ایک جملہ تک نہیں بولا اور ان میں سے کچھ نے ان کے ناروا رویے کی شکایت کی اور انہیں ذہنی اذیت رسانی کا الزام بھی دیا۔ ان کے ناروا رویے اور ان کی طرف سے سے ذہنی اذیت کا شکار ہونے والے طلبآہ و طالبات اپنے شعبے کے ذہین طلباء و طالبات میں شمار ہوتے ہیں لیکن وہ سب ڈرے ہوئے اور خوفزدہ تھے پہلے پہل تو وہ کچھ بولنے پربھی تیار نہ تھے۔ ڈاکٹر نسیم اختر کو بطور استاد اپنے شاگردوں میں غیر مقبولیت پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے شعبے میں طلباء و طالبات ان سے خوفزدہ ہیں اور ان کو "نفسیاتی مسائل" تک کا شکار قرار دے رہے ہیں۔

میں نے ان کے سرائیکی شعبے کے سابق طلباء و طالبات سے بھی انٹرویوز کیے۔ ان میں ڈاکٹر سعدیہ کمال جو اسلام آباد میں مقیم ہیں اور پیشہ صحافت سے وابستہ ہیں نے بہت تفصیل سے اور کھل کر اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نسیم اختر نے پہلے دن سے ان کے ساتھ ناروا سلوک رکھا۔ انہیں ذہنی اذیت سے دوچار کیا اور یہی معاملہ دوسروں کے ساتھ بھی تھا۔

"مجھے فخر ہے اپنے استاد محترم ڈاکٹر عبدالواجد تبسم پہ اور ملتان زکریا یونی ورسٹی سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی اعلی عہدیدار محترمہ ڈاکٹر نسیم اختر بھی شاگرد رہیں ہیں ان کی۔ استاد ایک نسل کی تربیت کرتا ہے معاشرہ سنوارتا ہے لیکن محترمہ نے اٹھارہ سالوں میں مجال ہے کہ مثبت رویہ دکھایا ہو۔ مجھے یونی ورسٹی میں 19 ویں سکیل کی اپوائٹمنٹ کا لیٹر ملا لیکن اپلائی بی پی ایس پہ کیا تھا اور لیٹر ٹی ٹی ایس کا اوپر سے سابق وائس چانسلر منصور کنڈی صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ خاتون نہیں چاہتی کہ تم یونی ورسٹی آئو مجھے قطعا افسوس یا حیرت نہ ہوئی وائس چانسلر کی بات پہ کیوں کہ حقائق سے باخبر تھی اور محترمہ نے پی ایچ ڈی کا وائیوا کروانے کے لئے مجھے دن رات میسجز کالز کیں اور تب تک رابطے میں رہیں جب تک وائیوا نہ ہوا اس کے بعد میری والدہ کے فوت ہونے کے بعد افسوس کا میسج تک نہ کیا لیکن مجھے بالکل حیرت نہ ہوئی لیکن سرائیکی ڈیپارٹمنٹ ملتان زکریا یونی ورسٹی کا ریکارڈ انتہائی خوف زدہ تھا پہلے اجمل مہر صاحب پھر قاضی عابد صاحب اور پھر ڈاکٹر ممتاز بلوچ سینئر مجھے ان کی بجائے محترمہ کو ڈائریکٹر بنا دینا ان سب حالات میں یونی ورسٹی کیسے جوائن کرتی اس ڈر کے مارے یہ خاتون جو ڈیڑھ دہائی میں مثبت رویہ اور کارکردگی نہ دکھا سکی۔ مجھے کیسے کام کرنے دے گی۔

ملتان سے صحافی، ادیب، وکلاء، سیاست دان سب نے مجھے ہمت بندھائی کہ آجائو ہم تمہارے ساتھ ہوں گے کیوں کہ اس کا مقابلہ صرف اور صرف تم ہی کرسکتی ہو۔ کئی طلباء استاد فون کرتے کہ وہ تنگ ہیں اکثریت سرائیکی میں داخلہ لینا چاہتے تھے لیکن داخلہ نہ دیا گیا۔ آج تک اس لئے چپ تھی کہ مستقبل میں آپ کا واسطہ پڑتا ہے کہیں پبلک سروس کمیشن میں ہیی تو کبھی کسی کمیٹی کی ہیڈ۔ پنگا نہ کیا جائے لیکن مجھے افسوس ہے کہ عورت ہوتے ہوئے عورت کی پروفیشنل کارکردگی پہ آواز اٹھانا پڑی۔ معذرت کے ساتھ کہ سئیں رفعت عباس میرے محسن ہیں لیکن انھوں نے ملتان رہتے اب آکے آواز اٹھائی جب ان کی بیٹی کا ایشو ہوا ہے۔

یاد رکھیں آپ جب تک ظلم پہ بولیں گے نہیں احتجاج نہیں کریں گے وہ خود کے ساتھ ظلم نہیں پورے معاشرے کا نقصان کریں گے۔ اب جو ہم آکے بولے آپ سب انصاف کیجئے دو دہائیوں سے کروڑوں تنخواہ لی اور سرائیکی ڈیپارٹمنٹ جو ہمارے دانشوروں کی محنت سبب بنا ہمیں اس عوض کیا ملا اور ہاں جب بھی کوئی محترمہ کی کارکردگی پہ حقائق کی بجائے سپورٹ کرے تو ضرور معلوم کریں اس کا کوئی رشتے دار کسی تعلیمی ادارے میں پڑھتا یا پڑھاتا نہ ہو۔ ان کی صورت حال سمجھ سکتی ہوں جب محترمہ نے مجھے تین بار یونی ورسٹی میں اہل ہونے کے باوجود نوکری نہ کرنے دی تو آپ سب کا ڈر خوف جائز ہے"۔

ایک الزام جو ہر طرف سے سننے کو ملا وہ یہ تھا کہ ڈاکٹر نسیم اختر "احساس کمتری" کا شکار، اندر سے ڈری ہوئی اور نفسیاتی عارضہ کی شکار ہیں۔ وہ ہر ذہین اور ابھرتی ہوئی خاتون یا مرد طالب علم سے خوفزدہ رہتی ہیں اور ان سے درشت رویہ اختیار کیے رکھنا ان کی عادت ثانیہ بن چکا ہے۔

مجھے اتفاق سے ان کی ان ساتھی خواتین سے بات چیت کا بھی موقعہ ملا جو ان کی اس زمانے کی دوست ہیں جب وہ ویمن ورکنگ ہاسٹل ملتان میں رہا کرتی تھیں۔ ان سب کا کہنا تھا کہ پہلے تو وہ ایک سادہ سی روایتی سے حلیے اور لباس میں رہنے والی خاتون تھیں، کم گو لیکن پھر ان کی کایا کلپ ہوئی اور وہ بدلے روپ میں نظر آئیں اور یہاں تک کہ ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ خاصی زود رنج، متکبر اور زھریلے جملہ بازی کرنے والی ہوگئين اور اب ان سے میں کوئی ان سے رابطے میں نہیں ہے۔ ان پر ایک الزام اپنے شوہر کے فوجی افسری کا رعب جھاڑنا اور اپنے سے تنازعے میں آنے والوں کو ڈرانے دھمکانے کا بھی ہے۔

میں نے ڈاکٹر نسیم اختر صاحبہ کے سامنے اپنی اب تک کی تحقیقات اور پس پردہ لوگوں سے گفتگو کا سارا خلاصہ رکھا اور انہیں پھر پیشکش کی کہ وہ اگر انٹرویو دینا چاہیں تو ہم ایک خاتون رپورٹر کے ساتھ کیمرہ مین بھیج دیں گے۔ انٹرویو اخبار، ڈیجیٹل میڈیا اور ایچ ڈی چینل پر چلا جائے گا۔ لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

میں ایک بار پھر انہیں پیشکش کرتا ہوں کھلے دل سے اگروہ سمجھتی ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ناروا مہم جوئی ہو رہی ہے تو وہ آئیں اور کھل کر اپنا موقف پیش کریں۔ اپنی کارکردگی بارے سرائیکی وسیب کے قارئیں اور ناظرین کو بتائیں اور جن مسائل کا وہ سامنا کر رہی ہیں انہیں بھی کھل کر بیان کریں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ سرائیکی اور سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر کی زبوں حالی پر سارا وسیب فکر مند ہے۔ اس زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے؟ کون سی قوتیں اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں؟ ان سوالات کے جواب ملنے انتہائی ضروری ہیں۔

Check Also

Cholesterol Report Israeli Khane

By Mubashir Ali Zaidi