Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Yaad e Ayyam

Yaad e Ayyam

یاد ایام

برٹش راج میں تین طرح کی سوچ پائی جاتی تھی۔ ایک وہ تھے جو انگریزوں کو نکال باہر کرنا چاہتے تھے اور ہندوستان کے لوگوں کو حکمرانی کی طاقت دینا چاہتے تھے۔۔ کانگریس یہی چاہتی تھی۔ دوسری سوچ تھی کہ ملک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے اور اور وہ اپنے اپنے ملک اپنی مرضی سے چلائیں۔ اور مسلم لیگ کا یہی خیال تھا۔

لیکن ایک تیسری آواز بھی تھی جو متحدہ تو نہیں تھی لیکن چاہتی تھی برطانوی راج کے اندر ریاستوں اور مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ خو مختاری دی جائے۔ اور اس رائے کے حامل زیادہ تر وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی عہدے پر موجود تھے یا مقامی حکومتوں کا حصہ تھے۔۔

اسی سوچ کے حامل ایک شخص کی دلچسپ داستان پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب کا نام ہے۔ یاد ایام

پہلے تو مصنف کا تعارف کروا دوں۔ یہ سوانح ہے۔ نواب ڈاکٹر سر حافظ محمد احمدسعید خاں صاحب آف چھتاری صاحب کی۔ چھتاری صاحب آگرہ و اودھ کی مشترکہ ریاست میں وزیر رہے۔ پھر کچھ عرصہ وہاں گورنر کی حیثیت سے تعینات رہے۔ گورنر کے عہدے پر کسی مقامی شخص کی تعیناتی غیر معمولی بات تھی۔ پھر اسی ریاست میں وزیر اعظم کی حیثیت سے ذمہداریاں سر انجام دیں۔ قومی دفاعی کونسل کے ممبر بھی رہے۔

اس کے بعد چار سال ریاست حیدرآباد کے بھی وزیر اعظم رہے۔ بلکہ اس حوالے سے ان کی شخصیت بہت اہم ہے کہ تقسیم کے وقت حیدر آباد کے وزیر اعظم کے فرائض وہی ادا کر رہے تھے۔۔ اور بدلتی سیاسی تاریخ کے حوالے سے ان کی حیثیت حیدرآباد کی بھارت میں شمولیت کے واقعہ میں ایک چشم دید گواہ کی سی ہے۔ اگرچہ جب قبضہ ہوا وہ عہدہ چھوڑ چکے تھے۔۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے چیف سکائوٹ بھی رہے۔

اب آتے ہیں کتاب کی طرف اگرچہ انہوں نے لمبی عمر پائی اور انیس سو بیاسی میں انتقال ہوا لیکن یہ سوانح عمری ان کی انیس سو اڑتالیس تک کی زندگی پر مشتمل ہے۔۔

اس کتاب کا مطالعہ کیوں ضروری ہے۔۔ یہ کتاب ایک بہت ذہین اور معاملہ فہم انسان کی لکھی ہوئی ہے اور مجھے کہیں بھی مبالغہ آرائی یا نرگسیت کا شبہ نہیں ملتا۔ جابجا آپکو فراست ملے گی۔

کتاب ہندستان کی سیاسی تاریخ کو ایک ڈائری کی صورت میں پیش کرتی ہے۔ بچپن کے نقوش بھی نظر آتے ہیں تو مشاہدات بھی۔ دھلی دربار کا ذکر، شہروں میں ہونے والی بدامنی کے واقعات کا ذکر، جنگ عظیم اول کے بعد سے بدلتی سیاسی صورتحال پر ایک رواں تبصرہ، خلافت تحریک، گاندھی کی مقبولیت یا سائمن کمیشن پر ہندستانیوں کو رد عمل، مسلم لیگ کی سیاست، سیاسی رہنمائوں کے خاکے، پہلی اور دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی تو ان کی ایک عینی شاہد کی حیثیت سے روداد۔ اور ہر اہم تقریر یا ڈاکومنٹس کے نوٹس، لندن میں آموں کی نمائش میں رٹول کی مقبولیت، دوسری جنگی عظیم کے شروع ہونے کے بعد کی صورتحال میں خودمختار ریاستوں کے خدشات، جناح سے اختلاف اور ان کی وجوہات۔۔

کتاب آپکو ریاستوں کی "خودمختاری" کی بہت کلیئر تصویر پیش کرتی ہے کہ یہ ریاستیں کس حد تک خودمختار تھیں۔ ان کا نظام کیسے چلتا تھا۔ تنخواہوں کا نظام، ٹیکس کی کولیکشن وزارتوں کی تقسیم انگریزوں کی مداخلت ایسا بہت کچھ ہے کہ آپ کو اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہندستان کی تقسیم یا خودمختارئی کی ضرورت بارے بہت سے سوال دماغ میں گردش کرناشروع کر دیں گے۔۔

اس کتاب میں بحری جہاز کا سفر بھی ملے گا یورپ کی سیر بھی کرائی جائے گی۔ شیر کا شکار بھی کھیلا جائے گا اور جم کاربٹ سے ملاقات بھی کروائی جائے گی۔

ایک بہت علمی اور تاریخی کتاب ہے جس کو ہر کتاب دوست کو پڑھنا چاہیئے۔

Check Also

Nange Paun Aur Shareeat Ka Nifaz

By Kiran Arzoo Nadeem