Shaam Ki Mundair
شام کی منڈیر
علمی حلقوں میں وزیر آغا کا نام خاصا جانا پہچانا ہے۔ سرگودھا کے قریب وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہیں بچپن گزرا اور یہی گائوں ان کی ساری عمر شناخت ٹھہرا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ اگرچہ نظم اور نثر دونوں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں لیکن ان کی اصل پہچان بحیثیت ایک نقاد جانی جاتی ہے۔۔ اگرچہ تنقید ایک بہت خشک اور بور موضوع سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی سوانح عمری شام کی منڈیر سے مجھے اتنی دلچسپ لگی کہ اسکا تعارف لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔
ان کے دادا پردادا گھوڑوں کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ایران سے افغانستان اور پھر لاہور منتقل ہوگئے۔ دادا کی اپنے بھائی کی اچانک وفات سے ان کی کاروبار سے دلچسپی ختم ہوگئی تو نوبت فاقوں پر آگئی۔ اسی دوران انگریزوں نے گھوڑا پال سکیم شروع کی تو ان کے والد نے سرگودھا کے قریب وزیرکوٹ گائوں آباد کیا۔
گائوں کی سادہ اور غربت کے بچپن کے دلچسپ واقعات میں دو سید بھائیوں کی آمد اور ان کی وجہ سے وزیر آغا کی زندگی میں آنے والی تبدیلی اور پھر سکول کی زندگی اور پڑھائی کے انداز۔ نویں کلاس میں منٹگمری شہر آمد اور ایک سال بعد ہی سرگودھا واپسی۔ جھنگ کالج سے گورنمنٹ کالج لاہور کا سفر۔۔ بہت سے کردار بہت سے واقعات۔
اپنے آبائی کاروبار بڑھانے کیلئے کوششوں کے سلسلے میں ہندوستان کے مختلف شہروں کے سفر اور ان سے جڑی داستانیں۔ تصوف کے سفر پر کافی دقیق گفتگو ملے گی اور سیر وسیاحت پر بہت سی جگہوں بارے پڑھنے کو ملے گا۔۔
تقسیم کے حوالے سے بھی ان کے مشاہدات پڑھنے کو ملیں گے۔ پینسٹھ اور اکہتر کی جنگ کے واقعات بھی ملیں گے۔۔ ادیبوں کے خاکے اور ان سے جڑے واقعات بھی۔ شادی سمیت ذاتی مسائل اور اس سے جڑی خوشیوں پر بھی کافی کچھ لکھا ہے۔۔ اپنے علمی و ادبی سفر کی کہانی بھی سننے کو ملے گی۔۔ نظم اور نثر پر تنقید کے حوالے سے بھی کافی کچھ جاننے کو ملے گا۔
لیکن مجھے جس چیز نے اس کتاب کو مکمل کرنے پر مجبور کیا وہ ان کی اپنی ذات کے اندر مسلسل ایک جنگ کی کیفیت ہے۔ جس میں وہ مسلسل کھوج اور جستجو میں لگے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے انسان زندگی کا عرفان ڈھونڈنا چاہ رھا ہو۔ اپنے ہونے کی وجہ جاننا چاہ رھا ہے۔ راہ حیات کیا ہے؟ مقصد حیات کیا ہے؟
کتاب سے ایک اقتباس
"اور اب شام کی آمد آمد ہے۔ اور میں بدستور اپنے گائوں میں رہ رھا ہوں۔ بہت کم سفر کرتا ہوں لیکن ہمہ وقت حالت سفر میں ہوں۔ جب سورج ڈھلتا ہے تو میں چھڑی ہاتھ میں لیے دور کھیتوں میں نکل جاتا ہوں۔ جب میں گاؤں سے نکل رہا ہوتا ہوں تو عین اس وقت پرندے، ڈھور ڈنگر اور کسان رات گزارنے کے لیے گاؤں کی طرف آرہے ہوتے ہیں۔ راستے میں ان سب سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان کے لیے رات سکون اور آرام اور نیند کا دوسرا نام ہے۔ میرے لیے رات، سفرکا ایک استعارہ ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ شام بظاہر دن کی روشنی کا آخری نقطہ ہے مگر یہ رات کی روشنی کا نقطہ آغاز بھی ہے اور میرا ایک طویل مسافرت کے بعد اب کہیں اس نقطہ پر پہنچا ہوں۔
آج سے تقریباً چونسٹھ برس پہلے جب میں دن کے نقطہ آغاز پر کھڑا تھا تو اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے ارد گرد کا ہوش تک نہیں تھا۔ مگر آج کہ رات کے نقطہ آغاز پر پہنچا ہوں تو دیکھ سکتا ہوں اور یوں اس گہرے اسرار کو جو معانی کا گہوارہ اور امکانات کا منبع ہے نہ صرف سن سکتا ہوں بلکہ اسے مس بھی کر سکتا ہوں۔ میں جب اسے دیکھتا ہوں تو اس کے اندر ویسا ہی دھماکا ہوتا ہے۔ جیسا ناموجود کے اندر ہوا تھا اور پھر سارا آسمان مسکراتے ہوئے ستاروں سے اٹ جاتا ہے اور میں ان ستاروں کو اپنے پھیلے ہوئے دامن میں اس طور سمیٹنے لگتا ہوں جیسے گاؤں کی لڑکیاں کپاس چنتی ہیں"۔