Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Khud Kalami Se Idrak Ka Safar

Khud Kalami Se Idrak Ka Safar

خودکلامی سے ادراک کا سفر

وفات سے چند دن پہلے ایک شام ابا جی کے پاس گیا تو انہوں نے اسٹرانومی پر ایک میگزین مجھے دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بگ بینگ ٹائم لائن والے ایک گراف ہے۔ وہ دیکھو۔

میں نے میگزین کھولا گراف ڈھونڈا۔ اچھی طرح جائزہ لیا لیکن کوئی نئی بات دکھائی نہ دی۔ بتایا یہ گراف بتا رھا کہ کائناٹ پھیل رہی ہے۔

کہنے لگے

نہیں

پھر غور کیا کافی غور کے بعد بتایا کہ کائنات ایک نقطے سے ظہور پا رہی ہے اور اس کی انرجی انفینٹی ہے۔

لیکن انہوں نے انکار میں سر ہلا کر گراف میں ایک جگہ انگلی رکھ کر کہا یہ وقت دیکھو۔

کائنات ایک سیکنڈ کے بیس لاکھویں حصے میں وجود آچکی تھی

اور ان کے چہرے پر ایک بڑی معنی خیر مسکراہٹ تھی اور ایک جملہ بڑبڑائے۔

اسے تو کن کہنے کی بھی ضرورت نہیں۔۔

اگر ببل تھیوری کو مان لیا جائے تو سمجھیں ایسی پتا نہیں اور کتنی کائناتیں اس وقت موجود ہیں۔

اور ان سب کو بنانے والا کتنا بڑا اور عظیم ہوگا!

اور حضرت انسان جب سے اس دنیا میں آیا ہے اس کائنات کے نظام کو سمجھنا چاہتا ہے۔ یہ کائنات کن اصولوں پر چل رہی وہ اصول ڈھونڈ رھا ہے۔ اس کیلئے علم بنائے ہیں۔ اور ان اصولوں کو ڈھونڈ کر وہ ایجادات کررھا ہے۔ لیکن کائنات اتنی وسیع ہے کہ اس کے علم محدود پر جاتے ہیں۔ فزکس جو مسئلے حل نہ نہ کرسکی اس کیلئے کوائنٹم فزکس کو میدان میں آنا پڑا۔

جیسے ریاضی کا حساب کم پڑا تو الجبرا سامنے آیا تھا۔۔

کائنات بہت وسیع ہے کیونکہ اسکو بنانے والا لامحدود ہے۔ اس لئے اس کے بنائے ہوئے نظام کو سمجھنے کیلئے ہمیں قدم قدم پر سوال اٹھانے پڑتے ہیں۔ ہمارا رب جب کائنات پر غور کرنے کیلئے کہتا ہے تو انہی سوالوں کو اٹھانے کیلئے اکساتا ہے جن کے جواب مل جائیں تو ہمارے دلوں پر اس کی عظمت ثبت ہوجاتی ہے۔۔

لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم سوال اٹھانے والوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اگر کوئی نئی بات کرتا ہے جو ہم نے پہلے سے سن نہ رکھی ہوتو ہم اس بات کا جواب ڈھونڈنے کی بجائے ردعمل پر اتر آتے ہیں۔

دین کے معاملات ہوں یا پھر زندگی کے مختلف شعبوں کو سمجھنے کا رویہ۔ ہم دلیل کا جواب گالی سے دیتے ہیں یا طعنوں سے اس کا رد پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔

اس کائنات کو وجود میں آئے کوئی چودہ ارب سال ہو چکے ہیں اور ہمارے زمین کو بنے ہوئے بھی کوئی ساڑھے چار ارب سال گزر گئے ہیں۔

اس زمین پر زندگی کے آغاز کے حوالے سے بہت سی اندازے لگائے گئے تھیوریاں بنائی گئی۔ جن میں ڈارون کی رائے کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ لیکن اس تھیوری کے حوالے سے ہم اس قدر تنگ ذہن کے حامل ہیں کہ اس کو جانے کے بغیر جو بھی اس حوالے سے بات کرتا ہے تو اسے بندر کی اولاد کا طعنہ دے کر اس دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔۔ یقین مانیں ڈارون کی تھیوری میں ایسیا کچھ نہیں ہے کہ اس کو پڑھنے سے آپکا ایمان ڈگمگا جائے گا۔ بلکہ اس کو پڑھنے کے بعد سوال سے سوال نکلتا ہے اور ان سوالوں کے جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے علم کی بہت سی سمتوں کا سراغ ملتا ہے۔ اور ہر علم آپکو اپکے رب کے قریب کرتا ہے۔۔

ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد ہمیشہ ڈائیالاگ پر ہوتی ہے۔ یعنی مکالمہ

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جو سوال اٹھایا گیا ہے اس میں یہ نکات درست نہیں تو اپنے دلائل سے اسکا رد دیں۔ اگر کسی نقطے کی وضاحت ضروری سمجھیں تو اس پر اپنی رائے دیں۔۔

ہماری نوجوان نسل اس وقت معلومات کے سمندر کے بیچ جی رہی ہے۔ اور وہ اس معلومات میں سے درست یا غلط کا انتخاب دلائل کی بنیاد پر کرتی ہے۔ فتووں کا دور گزر چکا ہے۔ قصے کہانیوں سے اس نسل کو مطمئن کرنا بہت مشکل ہے۔ اسلئے مکالمے کو فروغ دیں۔ زندگی کے بارے لوگوں کے اٹھائے گئے سوالات کو ایمان کی کمزوری یا طعنوں کے ساتھ جھٹلا کر بغاوت پر آمادہ مت کریں۔۔

بات سے بات نکلی ہے تو ایک کتاب جس نے مجھے سوچنے سمجھنے کا نیا شعور دیا تھا اس کا بھی ذکر ہوجائے۔

انسانی تمدن اور تہذیبوں کے ارتقا کے حوالے سے ایک بہت مددل کتاب ہے سیپئنز۔۔ بریف ہسٹری آف اریجن آف ہیومن کائنڈ نوح ہراری کی ایک ایسی تصنیف جو انسانی سوچ کی بے شمار بتیاں جلاتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم اسے کتاب کا اردو ترجمہ دستیاب ہے یا نہیں لیکن یہ ایسی کتاب ہے جسے ہر شخص کو پڑھنا چاہیئے۔۔

انسانوں کے مل جل کر رہنے کے آغاز سے لیکر بستیوں کا بسانا اور پھر آج کی موجودہ زندگی تک انسانی مدارج کیسے طے ہوئے اس پر ایک رواں کمنٹری کی گئی ہے۔ کتاب کا اسلوب نہائیت دلچسپ اور توجہات نہائیت مدلل ہیں۔

ایسی کتابیں آپکے ذہن کو روشن کرتی ہیں۔ سوچنے کیلئے نئے زاویئے دیتی ہیں۔ اور یقین جانیں کائینات کا ہر اسرار جب کھلتا ہے تو آپکو اپنے رب کے قریب کرتا ہے۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari