Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Fikr e Tonsvi

Fikr e Tonsvi

فکر تونسوی

مجھے افسوس ہے میرا فکر تونسوی سے تعارف صرف ادیبیوں کے تذکروں میں ان کے نام کے حد تک محدود تھا۔ پہلی ملاقات ان کی نامکمل سوانح پڑھنے کے بعد ہوئی ہے۔ اور ان کے گہرے طنز اور شگفتہ لہجے نے ایسا اسیر کیا کہ ان کی لگ بھگ سارئی کتابیں ڈھونڈ نکالی ہیں۔ مزاح نگاری آسان کام نہیں ہے۔ لیکن فکر کا انداز جدا ہے۔ نہ مشکل لفظوں کا تصنع جملوں کی بناوٹ میں گراوٹ لفظوں کا ہیر پھیر نہ خونمائی کی تصویر۔

آخر وہی ہوا جس کا میرے والدین کو خدشہ تھا کہ میں گرتے پڑتے بھی زندہ رہا۔ بلکہ خدشے کے مطابق پانچ برس تک جا پہنچا۔ انسان کی یہ عجیب ٹریجڈی ہے کہ جن بچوں کی مائیں انہیں پیدا کرکے کوڑے کرکٹ میں پھینک دیتی ہیں وہ ضرور زندہ رہتے ہیں۔ کوڑاکرکٹ میں سے دانہ دنکا چگ کر کھاتے ہیں، اور بڑے ہوتے جاتے ہیں میں نے کئی چوزوں کو اس طرح پورا مرغا بنتے دیکھا ہے۔ اور اس طرح مرغا بننے کو نوشتہ تقدیر کہتے ہیں۔ دیکھو لغات فیروزی، نون کی پٹی میں۔

میرا آبائی گائوں کونسا ہے؟

والد صاحب میرے اس عجیب سوال پر میرئی طرف مشکوک نگاہ سے دیکھنے لگے کہ لڑکے کے دماغ میں ایسا کوئی خلل نہ ہو۔ پوچھنے لگے بیٹا تم نے یہ بے معنی سوال کیوں کیا؟" بیٹے نے بے معنی جواب دیا " دراصل جی! میں نے کل ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک لڑکے کو اپنے گاؤں کی مٹی بہت عزیز تھی۔ جہاں اس کا جنم ہوا تھا اور پھر اس نے گاؤں کی وہ مٹی اپنے ماتھے پر لگائی اور گاؤں کی آن پر شہید ہوگیا۔ اور والد صاحب میں سوچتا ہوں مجھے کون سے گاؤں پر شہید ہونا چاہئے۔ اس گاؤں پر جہاں میں نے جنم لیا یا اس گاؤں پر جہاں میری بجائے آپ پیدا ہوئے تھے۔

مگر ماسٹر خدابخش کا ڈنڈا؟ اس نے سہمے ہوئے عوام میں جرات رندانہ پیدا کر دی تھی اور مجھے اسکول میں پہلا سبق یہ ملا کہ ہر جمہوریت کی پشت پر ایک ڈنڈا ضرور ہونا چاہیے۔ ورنہ کھجوروں اورغنڈوں کی آڑ میں کئی نسلیں، کئی تہذیبیں فناہوجاتی ہیں۔ اور تاریخ میں ان کے زوال کا صرف خالی خالی ذکر باقی رہ جاتا ہے اور اس دن جب میں مدرسے سے لوٹا۔ تو ایک الجھن سی اندر ہی اندر میری جان کھائے جارہی تھی۔ میں نے والد صاحب سے پوچھا۔

باپو ایک بات تو بتائو۔

پوچھو

"ماسٹر جی نے رادھو اور اللہ داد کو مرغا بننے کی سزا دی لیکن مرغ بنانے کے بعد ماسٹر نے رادھو کو پانچ ڈنڈے رسید کیئے۔ لیکن اللہ داد کو ایک بھی رسید نہیں کیا۔ کیوں؟ میرے سوال پر والد صاحب چونکے، مسکرائے، بولے "بیٹا نمبردار کی حویلی میں تین کتے چار بھینیسیں اورپانچ گائیں بندھی ہوئی ہیں۔ جبکہ رادھو کی بیوہ ماں کے پاس دو بکریاں۔۔

قافلے میں ہم چار مسافر تھے۔ والد صاحب، عبداللہ ساربان اس کی بیٹی عاشاں اور میں۔۔ انسان کے علاوہ اونٹ بھی تھے اور ایک بکری۔ قافلہ صرف اپنی جانوروں سے عبارت تھا۔ تاریخ کہتی ہے انسانوں کا ہر قافلہ جانوروں سے ہی مکمل ہوتا ہے، ورنہ اسے قافلہ نہیں کہا جاتا، انسانوں کا بے معنی جھنڈ کہا جاتا ہے۔ جانور ہی اسے معنی عطا کرتے ہیں۔

سری رام گاؤں کے امیر بنئے کا بیٹا تھا۔ گذشتہ دنوں کئی برس بعد اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ تین بلڈنگوں کا مالک ہے ایک ٹیکسٹائل مل میں حصے دار ہے۔ انکم ٹیکس کی باقاعدہ چوری کرتا ہے ہر سال باقاعدگی سے گنگاجی پر اشنان کرنے جاتا ہے۔ البتہ ایک دو مسئلے اسے مسلسل پریشان کیے رکھتے ہیں کہ اس کا بڑا لڑکا لولا لنگرا ہے ایک بیٹی نے خودکشی کر لی۔ حالانکہ اسے پچاس ہزار روپے جہنر میں دیے تھے۔۔ مگر لڑکے والے طمع میں آکر ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کرتے تھے۔ چنانچہ تنگ آکر نوجوان بیٹی نے خودکشی کر لی۔

میں نے اسے کہا: سری رام تم تو ریاضی میں اتنے قابل تھے۔ مگر تمہاری تو ساری ریاضی غلط ہوگئی۔

Check Also

Nange Paun Aur Shareeat Ka Nifaz

By Kiran Arzoo Nadeem