Saturday, 28 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Chand Tak Ka Safar Aur Insani Falah

Chand Tak Ka Safar Aur Insani Falah

چاند تک کا سفر اور انسانی فلاح

دو سوال اکثر پوچھے جاتے ہیں کہ اربوں ڈالر لگا کر چاند پر مشن بھیجنے سے انسان کو کیا حاصل ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ پچاس سال پہلے انسان چاند پر اتر گیا تھا تو اب کیوں نہیں اتر رہا۔۔

چاند یا سپیس میں جانے کے مقاصد تو بے شمار ہیں۔ کائنات کے آغاز کو جاننے سے لیکر اس کی وسعت کو ماپنے کی کوشش کرنا۔ زندگی کے آغاز کا پتا چلانے سے لیکر مستقبل میں انسان کو خلا سے آنے والے خطرات سے بچانے بارے تیاری کرنا۔ خلا میں ایسے تجربات کرنا جو زمین پر کرنا ممکن نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن اسی کام کیلئے بنایا گیا تھا۔

لیکن ان سب فوائد سے ایک عام انسان کو کیا لینا دینا؟

پچھلے بیس سالوں میں سانئنس نے جو ترقی کی اڑان ایک دم سے بھری ہے اس میں سب سے بڑا ہاتھ اس ٹیکنالوجی کا ہے جو انسان کو سپیس یا چاند پر بھیجنے کیلئے ایجاد کی گئی۔

اگر کولڈ وار نہ ہوتی تو امریکہ اور روس ٹیکنالوجی کے حصول پر اربوں روپے خرچ نہ کرتا تو لیپ ٹاپ، موبائل جی پی ایس، ایل ای ڈی لائٹس، وائرلیس ٹیکنالوجی، چارج ایبل بیٹریز، سولر ٹیکنالوجی سمیت بے شمار سہولیات ایک عام انسان کی زندگی تک پہنچنے میں ابھی دھائیاں لگ جانی تھیں۔ صحت کے حوالے سے انسانی جسم بارے ان باتوں کا علم ہوا جن کا زمین پر رہتے ہوئے پتا لگانا مشکل تھا۔ انسانی رابطے آپس میں اس قدر بڑھ گئے کہ دنیا ایک گلوبل ولیج کا درجہ حاصل کر گئی۔ موسمی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے پیشن گوئیاں ممکن ہو سکیں جس سے فصلوں کی پیداوار کو بڑھایا گیا۔۔

خلا میں انسان کو بھیجنے کیلئے ٹیکنالوجی کو اتنا چھوٹا اور ہلکا بنانا تھا کہ اسے خلا میں بھیجنا اوراسکا استعمال ممکن ہو سکے۔۔ جس کیلئے امریکہ نے چاند پر جو پہلے دو روبوٹ چاند پر بھیجے تھے جن کی وجہ چاند پر جانا ممکن ہو سکا تھا۔ اس پر آنے والا خرچ آج کے کرنسی ریٹ کے حساب سے دیکھا جائے تو 280 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ اور اپالو مشنز پر کوئی 260 ارب ڈالر خرچ کئے گئے۔۔

لیکن اربوں ڈالر چاند پر انسان کو پہنچانے پر خرچ کرنے سے جو ٹیکنالوجی تیار ہوئی ہے۔ اس نے پچاس سال بعد دنیا کو اس قدر تبدیل کر دیا ہے کہ ہمارے رہن سہن، تعلیم، صحت، کاروبار سمیت زندگی کے ہر شعبے کو بدل کے رکھ دیا ہے۔۔

جو لوگ یہ سوال کرتے ہیں۔ انسان دوبارہ چاند پر کیوں نہیں گیا تو اس کا ایک جواب تو بجٹ دیکھ کر ہی ہوگیا ہوگا کہ کولڈ وار کے خاتمے کے بعد امریکی سینٹ کیلئے اتنے بڑے بجٹ کو پاس کرنا ممکن نہیں رھا۔ ایک وقت ایسا آگیا تھا کہ ناسا نے بجٹ کی کمی کی وجہ سے خود سے مشن بھیجنے کم کر دئے تھے اور ٹیکنالوجی انڈیا جیسے ممالک کو منتقل کرکے سپیس مشنز کو جاری رکھا۔ اس دوران ایلون مسک نے دوبارہ استعمال ہوجانے والا راکٹ ایجاد کرکے ناسا کو سپیس میں کم خرچ سے مشن بھیجنے کے قابل بنایا ہے۔

اب چاند پر بار بار انسان کو نہ بھیجنے کی ایک وجہ تو بجٹ کی کمی ہے تو دوسری طرف اگر ربوٹس کی مدد سے مقصد کو پورا کیا جا سکتا ہے تو کثیر بجٹ استعمال کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ ربوٹس کو بھیجنا یکطرفہ سفر ہوتا ہے اور انسان کو بھیج کر واپس لانا ایک بہت دشوار اور مہنگا عمل ہوتا ہے۔۔

بہرحال ناسا کا ارٹیمٹس مشن جلد انسان کو چاند پر اتار رھا ہے۔ لگ بھگ اسی دوران چین بھی پہلا انسان اتارنے کی تیاری کررھا ہے۔۔

بھارت کو چاند پر بھیج کر اربوں ڈالر خرچ کرکے حاصل کیا ہوگا اس پر ٹیکنالوجی کے حصول سے لیکر اسے میچور کرنے تک کے عمل کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے الگ سے لکھنے کی ضرورت ہوگی۔

Check Also

Jhompri Mein Sakoon Aur Mahal Ki Daur

By Adeel Ilyas