Ashufta Sar
آشفتہ سر
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپکا سب سے بڑا محسن کون ہے تو میرا جواب ہوگا بچوں کا ادب۔ اگر کوئی پوچھے آپکا سب سے بڑا استاد کون ہے تو میرا جواب ہوگا بچوں کا ادب اور اگر کہا جائے کہ زندگی میں سب سے زیادہ رہنمائی کس نے کی ہے تو تو میرا جواب ہوگا بچوں کا ادب۔
میری تربیت میرے شعور کی آگاہی میری رہنمائی میں کلیدی کردار بچوں کے ادب کا ہے جو نونہال تعلیم وتربیت بچوں کا رسالہ آنکھ مچولی کی شکل میں ایک استاد بن کر اپنا کردار ادا کرتا رھا۔ اس ادب کے ذریعے ایسے کردار ملے جو آئیڈیل ٹھہرے۔ سچ اور جھوٹ کا فرق پتا چلا۔ حق کا ساتھ دینے کیئلے حق سکواڈ جیسے کرداروں نے تربیت کی۔ نیکی اور بدی کے درمیان لکیر کھینچ کر دی۔ یہ بچوں کا ادب ہی تھا جس نے گالی گلوچ غیبت چغلی سے بچنے کی نصیحت دی۔۔
اس لئے میں ہمیشہ نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کی تربیت کیلئے آپکے پاس وقت نہیں تو ان کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔ ان کو کتابوں سے جوڑیں۔ کتابیں بچوں کی غیر محسوس طریقے سے وہ تربیت کر دیتی ہیں جو کوئی استاد کوئی لیکچر نہیں کر سکتا ہے اور مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ جب اس حوالے سے کام کرنے والے فرد سے جب ملاقات ہوتی ہے۔ فیس بک پر تنزیلہ احمد سے تعارف ہوا تو ان کی بچوں کیلئے لکھی کہانیوں نے خاصا متاثر کیا۔ اور جان کر خوشی ہوئی کہ بہت یکسوئی کے ساتھ اس پر کام کر رہی ہیں۔
میرے سامنے اس وقت ان کی کتاب آشفتہ سر پڑی ہے۔ مجھے لگا ان کی پہلی کتاب کی طرح بچوں کیلئے سبق آموز کہانیوں پر مشتمل ہونگی۔ لیکن کتاب شروع کی تو پتا چلا یہاں تو اچھا خاصا بڑا کام کر دیا ہے۔ جو ناصرف بچوں بلکہ بڑوں کیلئے بھی دلچسپی کا سامان ہے۔ فکشن لکھنا اور تاریخی واقعات کے درمیان فکشن لکھنا دو مختلف کام ہے۔ اور ابتدائی دو ناولٹ میں فکشن اور تاریخ کے درمیان خوب انصاف کیا ہے۔۔
آشفتہ سر کے برعکس مجھے انا بیتا پر ان کی گرفت زیادہ مضبوط محسوس ہوئی ہے۔۔ دونوں ناولٹ کی بنت اور پھر ان کے مختلف واقعات کو آپس میں جوڑ کر بہت مشکل کام کو بہت احسن طریقے سے نبھایا ہے۔
آشفتہ سر کی کہانی اہراموں کے اسرار سے جڑی ہے۔ جس میں۔۔ نہیں میں نے کہانی سنا دی تو تجسس ہی ختم ہوجائے گا۔۔
انابیتا کی کہانی وادی کالاش سے جڑی ہے۔ اس ناولٹ کو پڑھ کر مجھے عرصہ پہلے ایک ناول یٹی مین یاد آگیا۔ اگرچہ کہانی بالکل مختلف تھی لیکن اس علاقے سے جڑی تھی۔۔ پرچھائیں اور خون آشام خاک تک تو سسپنس اور ماورائے سلسلہ جاری نظر آتا ہے لیکن پر اسرار قوت آسیب زدہ ہم نشین اور چھوٹا میں اسلوب بدل جاتا ہے۔ کہانیوں کے کردار ہمارے ارد گرد سے اکھٹے کرکے تجسس اور سسپنس کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے۔۔
ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آشفتہ سر کتاب بطور ایک قلم کار تنزیلہ کی بہت اونچی اڑان ہے۔ کیونکہ اسرار اور تجسس سے بھرپور دیومالائی کہانیاں لکھنا ایک مشکل کام ہوتا جس پر صرف ایک منجھا ہوا قاری پورا اتر سکتا ہے۔
ایسی بظاہر بے مقصد لیکن تجسس سے بھرہور کہانیوں سے بچوں میں پڑھنے کا رجحان بڑھتا ہے۔ اور وہ ان کو پڑھنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔ اور آج کے دور میں بچوں کی تربیت کیلئے ان کو کتاب کی طرف لانا بہت ضروری ہے۔۔
میری طرف سے بہت سی دعائیں اور نیک تمنائیں۔ اور مشورہ اور نصیحت ہوگی۔ لکھنے کے اس عمل کو جاری رکھیں۔ اور چاہے افسانے لکھنے لگیں یا ناول لیکن بچوں کیلئے لکھنا نہیں چھوڑنا ہے۔۔ کتاب حاصل کرنے کیلئے مصنفہ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔۔
اگرچہ ان کا ناول ہم اور وہ بھی اس کتاب کے ہمراہ مجھے موصول ہوا تھا لیکن اس پر رائے تب ہی دے سکتا جب لڈو اسے پڑھ کر مجھے لوٹا دے گا۔