Social Media Ke Sariyal Log
سوشل میڈیا کے سڑیل لوگ
مجھے لکھتے ہوئے تین سے چار سال ہوئے ہیں لیکن الحمداللہ میں بہت سے لوگوں کی طبعیت سے واقف ہوگیا ہوں۔ ان میں سب سے زیادہ قابلِ رحم وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا لکھنے لکھانے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن وہ ہر تحریر پر اپنی تلخ یادوں یا محرومیوں کا غصہ ضرور نکالیں گے۔
آپ ایک مزاحیہ تحریر لکھ دیں یا پھر اپنے خوبصورت ماضی کی یادیں بانٹیں۔ ان سڑیل مزاج لوگوں کی آنکھوں سے شعلے اور کانوں سے دھواں نکلنا شروع ہوجائے گا۔ یہ لوگ اول جلول بکنا شروع ہوجائیں گے جن کا تنقید سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ حالانکہ مثبت اور منفی دونوں تنقید اچھی ہوتی ہیں لیکن ان لوگوں کے منہ سے صرف گالیاں اور محرومیاں نکل رہی ہوں گی۔
آپ کی مزاحیہ تحریر پر آپ کی تربیت پر انگلیاں اٹھائی جائیں گی اور بچپن کی یادوں پر مشتمل جذباتی تحریر پر موجودہ دور سے ہم آہنگ نہ ہونے کے طعنے دیے جائیں گے۔ یہ بے چارے لوگ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں بچپن میں صرف ٹھڈے ملے ہوتے ہیں جس کو یہ اعلٰی تربیت کہہ کر اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔
میں نے ایک ایسا شخص بھی دیکھا جس کو فیس بک پر سالگرہ کی مبارکباد دینے پر بھی اعتراض تھا کہ لوگ فیس بک کی بجائے گھر جاکر مبارک باد کیوں نہیں دے رہے ہیں۔ آپ ایک تجویز دے رہے ہوں گے لیکن یہ لوگ اس کو اپنے اوپر لے کر، بازو چڑھا کر، آنکھیں لال کرکے آپ پر لفظوں کی گولہ باری شروع کردیں گے۔
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو شادی بیاہ میں کھانے میں لازمی نمک یا زیادہ گھی ڈالنے کی شکائیت کریں گے لیکن کم از کم چار پلیٹ قورمے اور تین چاول کی پلیٹیں رگڑ کر آرہے ہونگے۔
یقین کریں یہ لوگ آئینے کے آگے کھڑے ہوکر غصہ کررہے ہوتے ہیں آئینہ ان کی "خوف صورت" کو مزید خوف صورت کیوں دکھا رہا ہے۔
ایسے لوگوں کو صرف نظرانداز کردینا چاہئے کیونکہ ان لوگوں سے بحث کرنا کیچڑ میں پتھر مارنے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے میرا مشورہ ہے کہ ایسے لوگوں کی گالی گلوچ کا آپ کبھی جواب نہ دیں۔ کیونکہ یہ پھر آپ کو اپنی سطح پر لے آئیں گے اور یہ آپ کے شایان شان نہیں کہ ایسے لوگوں کے منہ لگیں۔
ویسے ایسے سڑیل لوگوں کو میرا مشورہ ہے کہ "پاس کرو یا برداشت کرو" یا پھر "سڑیا نہ کر محنت کریا کر"۔