Samundar Par Pakistani Aur Mulazmat
سمندر پار پاکستانی اور ملازمت
دوران ملازمت جہاں میں نے کافی وقت شمالی افریقہ کے ملک لیبیا میں گزارا وہاں متحدہ عرب امارات میں بھی کافی وقت گزارنے کو ملا۔ ابھی حال میں میرے ایک ساتھی نے گلف میں ملازمت حاصل کی اور جب میری اس سے بات ہوئی تو اس نے فوراً کہا کہ یہاں پاکستانی بہت کم ہیں آپ اس پر لکھیں کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستانی بہت کم تعداد میں ہیں۔ میں خود بھی عرصہ دراز سے اس پر لکھنا چاہ رہا تھا لیکن بس سوچ کر ہ جاتا تھا۔ اب سوچا کہ اس پر بھی لکھوں کہ اصل وجہ کیا ہے بجائے اس کے کہ عرب ممالک بک گئے ہیں فلاں ڈھمکناں وغیرہ وغیرہ
مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جتنا ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں ہم کھینچتے ہیں باقی کوئی دوسرا ایسا نہیں کرتا ہے بالخصوص جب آپ ملک سے باہر ہوں۔ یقین کیجیے جتنا حسد ملک میں اور ملک سے باہر ہم ایک دوسرے سے کرتے ہیں اس کے مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا ہے۔
سب سے پہلے میں اپنا پاکستان کا تجربہ بیان کروں گا کہ میں ایک بہت بڑے ادارے میں کام کرتا تھا جس نے ایک جاپانی ادارے سے مشترکہ معاہدہ کرکے ایک الگ کمپنی (Joint Ventre) بنائی۔ اس جاپانی ادارے کی وجہ سے بہت سے لوگ جاپان بھی گئے اور وہاں سے تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کام بھی کیا۔ اس ادارے کی وجہ سے ملینز ڈالرز کے پراجیکٹ ادارے کو ملتے رہے اور پاکستان میں زرِ مبادلہ بھی آتا رہا۔ جاپانی اپنے پرانے اور تجربہ کار لوگوں کو بہت عزت دیتے ہیں۔ اس کمپنی میں سال میں دودفعہ تنخواہیں بڑھتی تھیں اور ہر مہینے بیس سے پچیس فیصد بونس الگ سے ملتا تھا۔ آسان الفاظ میں ہم لوگوں کی دوبئی ادھر ہی لگی ہوئی تھی۔ ہر دوسرے بندے کے دو تین پلاٹ تھے۔ پھر جاپانی کمپنی نے گلف کے پراجیکٹ دینے شروع کیے تو ہم لوگوں کی چاندی ہوگئی کیونکہ سب کو ادھر کام کرنے کا موقعہ نہایت اچھی تنخواہ پر مل جاتا تھا۔
اب اس ادارے میں موجود باقی کمپنیز کے لوگوں کی تنخواہیں ہم سے بہت کم تھیں جو ان سب کوچھبنے لگیں۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ دوسری کمپنی کا نائب صدر بھی لفٹ میں جاتے ہوئے مجھے کہتا کہ تم لوگوں کے بڑے مزے لگے ہوئے ہیں، بڑی بڑی تنخواہیں مل رہی ہیں۔ پاکستانی اداے کے سربراہ کو اس کے خیرخواہوں نے مشورہ دینا شروع کیا کہ جاپانیوں کے ساتھ معاہدہ ختم کردو اور یہ کمپنی خود لے لو۔ چناچہ ایک منصوبے کے تحت ملازموں کو تنگ کیاجانے لگا اور انہوں نے کمپنی کو چھوڑ کر غیر ممالک جانا شروع کردیا۔ جاپانیوں کے لیے یہ صورتحال خطرناک تھی تو انہوں نے پاکستانی سربراہ سے کہا کہ یہ کمپنی ہمیں دے دیں تاکہ ہم اسے اپنے طور پر چلائیں اور اس کی تعداد میں بھی اضافہ کریں۔
پاکستانی ادارے کے سربراہ نے کہا نہیں یہ کمپنی ہم خود لے کر چلائیں گے اور جاپانی کمپنی سے معاہدہ ختم کردیا۔ نتیجتاً تین سے چار سال کے بعد ادارہ آسمان سے زمین پر آگیا۔ بے شمار ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا گیا۔ باقی سب لوگوں کی تنخواہیں پچیس سے پچاس فیصد کم کردیں۔ یہی نہیں بلکہ پانچ سال تک تنخواہیں بڑھائی ہی نہیں۔ اس جاپانی کمپنی نے اپنا دفتر ایک دوسرے ملک میں کھول لیا اور ہزاروں بندوں کو ادھر روزگار دیا۔ اندازہ کریں اس شخص کی بے و قوفی اور اس کے خیرخواہوں کے حسد نے ناصرف لوگوں کو ذاتی طور پر بلکہ پورے پاکستان کے اندر زرمبادلہ آنے کا ذریعہ بھی بند کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
یہ موصوف پاکستانی حکومت میں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہے اور ادھر بھی بہت نقصان پہنچایا۔
جب میں اس پاکستانی ادارے کی طرف سے متحدہ عرب امارات میں تھا تو میری خدمات کلائنٹ کو دی گئی تھی۔ یقین کیجیے ادھر کلائنٹ کے پاس پاکستانی آکر ایک دوسرے کی آکر اتنی بدخوہیاں کرتے تھے کہ الا امان۔۔ کلائنٹ مجھ سے پوچھتا تھا کہ یہی ٹیم پچھلے پراجیکٹ پر بھی تھی لیکن اس نے وقت سے پہلے پراجیکٹ ختم کردیا تھا لیکن اب سال سے اوپر ہونے کو آگیا ہے لیکن یہ پراجیکٹ ختم ہونے کونہیں آرہا ہے۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ اس وقت جاپانی مینیجمینٹ تھی اور اب پاکستانی۔۔
ادھر دوسری کمپنیز میں یہ صورتحال تھی کہ اگر ایک سال پہلے ادھر دس پاکستانی تھے تو سال بعد پانچ رہ جاتے تھے لیکن اس کے برعکس پڑوسی ملک کے دس سے پندرہ ہوجاتے تھے۔
لیبیا میں ہم افردی قوت کی فراہمی (مین پاور سپلائی) کا کام کرتے تھے۔ زیادہ تر ان میں ٹیکنیشین، الیکٹریشن، مزدور وغیرہ ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ہم نے کوشش کرکے کلائنٹ کے ہیڈ آفس میں کلیدی عہدوں پر بندہ متعین کروائے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائیں گے لیکن مجھے انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ دو سال کےاندر اندر ماسوائے ایک بندے کے سب کی ادھر سے چھٹی ہوگئی۔ ان کو نکلوانے میں اس بندے اور ان کی آپس میں لڑائی کا دخل تھا۔
متحدہ عرب امارت میں ان دنوں اکاونٹس میں میرے ایک جاننے والے کی ملازمت ہوئی تو اس نے بتایا کہ ایک لمبے عرصے تک پاکستانیوں پر کیش وغیرہ کی ملازمت پر پابندی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ان دنوں آن لائن سسٹم وغیرہ تھے نہیں اور بہت سے پاکستانی کچھ کیش اکٹھا ہونے پر وہ سب اٹھاکر پاکستان چل دیتے تھے۔ خیر اب تو آن لائن سسٹم کی وجہ سے یہ سب کچھ مشکل ہوگیا ہے۔
اب بھی گلف میں پڑوسی ملک کے لوگوں کی دھڑادھڑ جانے کی وجہ یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں اور جیسے ہی کوئی نئی آسامی نکلتی ہے وہ اپنے بھائی بند کو بلالیتے ہیں۔ کچھ پاکستانی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ وگرنہ ان کا مشہور ڈائلاگ ہوتا ہے "بندہ روکھی سوکھی کھا لے پر اپنے ملک میں رہ لے"۔
اس لیے اپنی حکومت یا دوسرے ممالک کو کوسنا بند کرکے اپنی عادتیں بدلیں۔
مجھے یہ بھی پتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ملک سے باہر قدم نہیں رکھا وہ اس تحریر پر بہت تلملائیں گے لیکن حقیقت یہی ہے۔
اس پر میرے شاگرد خاص نے ایک بوسیدہ لطیفہ بھی سنایاجو کچھ یوں ہے:
ایک غیرملک میں ایک بچہ سمندر کنارے بیٹھا کیکڑے پکڑ پکڑ کر ایک بالٹی میں ڈالتا جا رہا تھا۔ اس کے پاس سے دو پاکستانی گزرے۔
ایک نے کہا "بیٹا! اس بالٹی کے اوپر ڈھکن دے دو ورنہ کیکڑے بھاگ جائیں گے"۔
بچے نے جواب دیا: "انکل ان کا حال بھی آپ جیسا ہے۔ فکر نہ کریں۔ ایک نکلنے لگتا ہے تو دوسرا اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچ لیتا ہے"۔