Qainchi Cycle Aur Master Jee
قینچی سائیکل اور ماسٹر جی
بڑے شہروں میں رہنے والے بچے کیا جانیں کہ قینچی سائیکل کیسے سیکھی جاتی تھی۔ اب تو دو سال سے لے کر سولہ سال تک کے بچے کے لئے اس کے حجم کے مطابق سائیکل دستیاب ہے اور ایک ہم لوگ تھے جنہوں نے بائیس سالہ نوجوانوں والی سائیکل پر سائیکل چلانی سیکھی جو کہ ہمارے قد سے بھی بڑی ہوتی تھی اور بالعموم محلے کے مولوی صاحب یا پھر گھر پر پڑھانے کے لئے آنے والے ماسٹر جی کی ہوتی تھی۔
ہمارے چچاؤں اور پھپھیوں نے گھر پر پڑھانے کے لئے آنے والے مولوی صاحب کی سائیکل پر سائیکل سیکھی اور جب وہ سائیکل ہمارے نصیب میں آئی تو مولوی صاحب سے زیادہ "ض" ضعیف ہوچکی تھی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے ماسٹر جی کا جو ہمیں گھر پر پڑھانے آتے اور ہفتے کی شام کو سائیکل ہمارے حوالے کرجاتے کہ چلا لینا اور اتوار کی شام کو لےجاتے۔
ہمارے تجربہ کار محلے دار لڑکوں نے ہمیں بتایا کہ پہلے قینچی چلانا سیکھو کیونکہ تم لوگوں کےپیر تو ویسے بھی پیڈل تک نہیں پہنچیں گے۔ تو جناب پہلے مرحلے میں ہم سب دوستوں کو ایک پرمغز سبق دیا گیا کہ کس طرح اپنا ایک پیر سائیکل کے فریم سے نکال کر دوسری طرف لے جایا جائے پھر اپنے سیدھے ہاتھ سے "گدی" یعنی نشست کو مضبوطی سے پکڑنا ہے۔ الٹے ہاتھ سے ہینڈل سنبھال کر اپنے آنکھیں ہینڈل کے درمیان پر لگے پیچ پر رکھنی ہے اور پھر سیدھے پاؤں جو فریم سے نکال کر پیڈل پر رکھا جاچکا ہے اسے ہلکا ہلکا مارتے ہوئے توازن برقرار رکھنا ہے اور سائیکل چل جانے پر الٹا پیر بھی دوسرے پیڈل پر رکھ کر اچک اچک کر سائیکل چلانی ہے بلکہ اگر پورا پیڈل نہ لگے تو آدھے پیڈل سے کام چلانا ہے۔
سب سے پہلے میری باری آئی میں نے پوری قوت سے گدی پکڑی اور ایک آنکھ بند کرکے ہینڈل کے پیچ کا نشانہ لیا اور دوسرے ہاتھ سے ہینڈل پکڑا۔ سکھانے والے گرو نے ابھی سائیکل پکڑی ہوئی تھی۔ ہمارے اس ایکشن پر سب نے تالیاں بجا کر داد دی پھر اس نے سائیکل چھوڑی اور کہا چلاؤ۔ ہماری ساری توجہ پیچ پر تھی اور الحمداللہ فوراً دھڑام سے چاروں شانے چِت اور اب کی دفعہ بھی تالیاں بجیں لیکن بِستی کرنے کے لئے۔ پھر سب کے ساتھ یہی ہوا۔
اس طرح ہمیں کوئی ایک مہینہ لگا۔ درمیان میں ہم ٹیوشن کے دوران باری باری سائیکل پرکوشش کرتے رہتے اور یاد نہیں کہ کتنی ہزار دفعہ سائیکل سمیت گرے لیکن سائیکل کی "پائیداری" اور ہماری "ڈھٹھائی" کو سلام کہ چھوٹی موٹی چوٹوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔
پھر گرتے پڑتے وہ مبارک دن آن پہنچا جب پہلا پیڈل کامیابی سے لگا اور سائیکل بھی نہ گری۔ آپس کی بات ہے ویسی خوشی مجھے کار چلاتے ہوئے بھی نہ ملی جو اس پیڈل کو مارنے پر اور سائیکل کے نہ گرنے پر تھی۔
میں نے کوئی دس پیڈل مارے لیکن سائیکل نہیں گری پھر اس ہی گھبراہٹ میں گر گئے کہ پتا نہیں بریک کیسے لگے گی۔ اب ہم سائیکل کو اڑاتے پورے محلے میں پھرتے تھے اور ہمارے جڑواں بھائی کو ہم سے بھی دگنا وقت لگا سائیکل سیکھنے میں، یہاں تک کہ ہم نے قسم کھائی کہ بھائی چڑیا بھی سائیکل چلانی سیکھ لے گی لیکن تو نہیں۔۔ خیر اس نے بھی سیکھ ہی لی۔
اب اگلا مرحلہ گدی پر بیٹھ کر سائیکل چلانے کا تھا لیکن ہم میں سے کسی کے پیر بھی سائیکل پر بیٹھ کر نیچے نہیں لگتے تھے۔ ہم چبوترے کے ساتھ سائیکل کھڑی کرتے اور اس پر بیٹھ کر ایک دوست کو کہتے کہ وہ دھکا مارے اور پھر ہم آدھے آدھے پیڈل مارتے سائیکل چلاتے اور چکر پر چکر کاٹتے واپس چبوترے پر آکر پیر ٹکاتے وگرنہ اکثر ایک دو چکروں کے بعد موڑ کاٹتے گر جاتے تھے لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری تھی۔
کچھ عرصے کے بعد ہم سب ماہر سائیکلسٹ بن چکے تھے اور ہاتھ چھوڑ کر بھی سائیکل چلا لیتے تھے۔
ایک دن بھائی نے کہا "میں اب تجھے بھی بٹھا کر سائیکل چلا سکتا ہوں"۔
ہم نے کہا "معافی دے دے یار"۔۔
بولا "آ بیٹھ"۔۔ میں پیچھے بیٹھنے لگا تو بولا پیچھے بیٹھنے سے توازن نہیں رہتا۔۔ آگے بیٹھ۔۔
میں آگے بیٹھ گیا تو سائیکل چلانی شروع کی۔۔ اب جہاں سے موڑ کاٹنا تھا ادھر جوہڑ تھا۔۔ اب موڑ تو کیا کاٹنا تھا سیدھے جوہڑ کی طرف سائیکل۔۔ میں اتر بھی نہ سکوں۔۔ میں نے شور مچایا بریک مار۔۔ اب بریک تو کیا لگنی تھی بس ہم دونوں جوہڑ میں"مجوں" بھینسوں کے ساتھ نہانے کے لئے کھڑے ہوگئے۔۔
دوسرا واقعہ اسلم "کھنگے" کے ساتھ پیش آیا۔۔ وہ حسب معمول قینچی چلاتے چلاتے جوش میں آکر بولا "اللہ کا نام لے کر" اور شومئی قسمت عین اس ہی وقت اس کی سائیکل مسجد سے ٹکرائی اور وہ وہیں سجدے میں گر گیا۔ بے چارے کی بازو ٹوٹ گئی تھی اور بعد میں ٹھیک بھی ہوگئی لیکن ہم اب بھی اسے "اللہ کا نام لے کر" چھیڑتے ہیں۔۔
ایک دن ماسٹر جی سائیکل چھوڑ کر گئے تو ہم نے سوچا ماسٹر جی کی سائیکل کو "نوا نکور" بنایا جائے آخر کو ہم سب نے اس ہی پر سائیکل چلانا سیکھی ہے۔
ہم نے پڑوس میں بنتے مکان سے سمینٹ کی خالی بوری لے کر اسکو ستلی (باریک رسی) کے ذریعے سائیکل کے ڈنڈوں پر لپیٹا تاکہ یہ نئی سہراب سائیکل کی طرح نظر آئے جس کے ڈنڈوں پر بھورا کاغذ چڑھا ہوتا تھا۔
پھر ہم نے ایک شادی والے گھر سے رنگ برنگی جھنڈیاں لے کر انکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے سائیکل کے پہیے میں موجود تاروں پر لگا دیے اور اپنے تئیں اسکی خوبصورتی میں اضافہ کردیا۔ اسکے علاوہ ہینڈل اور بریک پر بھی ستلیاں"رسیاں" لٹکا دیں کہ استاد نذر (سائیکلوں کی مرمت کرنے والا) کی سائیکلوں پر بھی پلاسٹک کی رسیاں سی لٹکی ہوتی تھیں۔
اب ہم سائیکل کو دلہن بنانے کے بعد سوچ رہے تھے جب ماسٹر جی آئیں گے تو سائیکل دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اور خوشی سے برا حال ہوجائے گا۔ شام کو ہم کھیلنے گئے ہوئے تھے تو ماسٹر جی اپنی سائیکل لے گئے اور ہم سب کو افسوس ہوا کہ ہم انکی خوشی نہ دیکھ سکے۔
اگلے دن جب ماسٹر جی پڑھانے آئے تو سائیکل سے سب چیزیں اتری ہوئی تھیں۔ ہم صدمے سے نڈھال ماسٹر جی کے سامنے آئے تو آگے کا قصہ ماسٹر جی کی زبانی۔۔
میں جب شام کو سائیکل لینے پہنچا تو بیٹھک میں کھڑی رنگ برنگی چیز کو بالکل بھی پہچان نہ پایا اور تم لوگوں کے چچا سے پوچھا تو انہوں نے کہا "یہی آپ کی سائیکل ہے جس کو بچے لگے ہوئے تھے سجانے۔۔ "۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ روؤں کہ ہنسوں۔ ہمت کرکے سائیکل پر بیٹھ کر چوک میں پہنچا تو آوازیں لگنا شروع ہوگئیں۔۔
"خیر ہے ماسٹر جی! ڈیٹ پر جا رہے ہو"
"اوہ ستاں خیراں"
"بلے وی بلے"
"بڈھی گھوڑی لال لگام" یہ خالہ تندور والی تھیں جو کسی کو نہیں بخشتی تھی۔۔
میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ کہاں چھپوں۔۔ خیر شرم سے پسینہ پسینہ میں اپنی گھر کی گلی کی نکڑ پر پہنچا تو سارے بچے تالیاں بجاتے سائیکل کے پیچھے پیچھے۔۔
گھر میں جیسا ہی داخل ہوا تو ابا میاں بولے "واہ میاں! آج تو لونڈے لپاڑے لگ رہے ہو"۔۔
"آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے؟ یہ کس بچے کی سائیکل اٹھا لائے" بیگم باورچی خانے سے نکلتی ہوئی بولیں۔۔
"بچوں نے ضد شروع کردی کہ "ہمیں جھولے دیں رنگ برنگی سائیکل پر"
میں نے اس ہی وقت سارا کچھ اتارا اور اس ہی وقت ماسٹر جی نے ہمارے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ تم لوگوں کی مہربانی جو میری سائیکل کو دھویا بھی۔۔
لوجناب بھلائی کا تو دور کبھی رہا ہی نہیں اب دیکھیے ہماری نیکی ہمارے ہی گلے پڑ گئی۔۔