Khaala
خالہ
مثل مشہور ہے کہ ماں اور سگے رشتوں کے بعد کوئی رشتہ ہے تو وہ خالہ کا ہے۔ اگر ہمارے دور کی روایتی خالہ کا سوچا جائے تو محبت و شفقت کا ایک پیکر ذہن میں آتا ہے۔ جائے نماز پر بیٹھی ہوئی سفید بالوں، نورانی چہرے والی جیسے چاند کی بوڑھیا ہو۔
میری خالہ بھی بالکل ایسی تھیں چاندی جیسی رنگت اور سفید روئی جیسے بال، امی اور ان میں کمال کی مشابہت تھی۔ جب میں لاہور پڑھتا تھا تو تقریباً ہر دوسرے ہفتے صبح صبح خالہ کے گھر شیخوپورہ پہنچ جاتا۔ وہ سر پر ہاتھ پھیر کر پیار کرتیں اور پھر فوراً ناشتہ بنانے بیٹھ جاتیں تھیں۔
جب میں واپس لاہور آنے لگتا تو میری امی کی طرح وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آتیں اور دعائیں پڑھ پڑ کر میرے ماتھے پر پھونکتی رہتی تھیں اور پھر جب تک میں نظر آتا رہتا وہ یہ عمل دہراتی رہتی تھیں۔ اور اگر میں نے ان سے مل کر گھر جانا ہوتا تھا تو کہتی کہ گھر پہنچ کر "چٹھی لازمی گیر دیو" (خط لازمی لکھنا)۔
ہر شادی پر خالہ سے سلام دعا لینے کے لیے ہر بندہ پیش پیش ہوتا تھا۔ میری امی بھی میری خالہ کی طرح بہت دعائیں دیتی تھیں اور وہ ایک خالہ اور پھوپھی کے طور پر یکساں مقبول تھیں۔ میری امی کے بڑے بھانجے اکثر محفلوں میں بچوں سے ذکر کرتے کہ میں آپ کو ایک ایسی خاتون سے ملواؤں گا جن کے سفید بال ہیں لیکن وہ کرکٹ کے سارے میچ شوق سے دیکھتی ہیں اور وہ ہیں میری خالہ۔ اس ہی طرح میری امی کے باقی بھتیجے اور بھانجے خواہ کسی بھی ملک میں ہوں ان کو گاہے بگاہے اور عید پر تو لازمی ضرور فون کرکے دعائیں لیتے تھے اور امی بھی کئی دنوں تک ان کا ذکر کرتی رہتی تھیں اور سب کو بتاتی کہ میرے بھانجوں اور بھتیجوں کا فون آیا تھا۔
اللہ میری امی، خالہ اور تمام لوگوں کے بزرگ جو اس دنیا سے جاچکے ہیں ان کی مغفرت کرے آمین۔
یہ تو تھیں ہمارے دور کی خالائیں (جو آپ میں سے کچھ خوش قسمت لوگوں نے دیکھی ہوں گی) جو موجودہ دور میں تقریباً عنقا ہوچکی ہیں۔ خدانخواستہ میں اب اس دور کی خالاؤں کی محبت اور شفقت پر کوئی شک نہیں کررہا ہوں لیکن وہ جو روایتی خالہ کا پیکر تھا وہ ماضی میں رہ گیا۔ اب جدید خالائیں ہیں اور جدید بھانجے اور بھانجیاں جو بجائے جھک کر منہ سے سلام کرکے سر پر ہاتھ رکھوا کر دعا لینے کی بجائے بس اپنا مریل سا ہاتھ آگے کردیتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں "نبض تو چیک کردیں"۔
اگر خالہ جگت لگائے تو جواب میں اس سے بڑھ کر جگت لگاتے ہیں جو تقریباً بدتمیزی کے ذمرے میں آتی ہے۔ ویسے آج کل کی خالہ نصیحتیں کرنے سے گھبراتی ہے اور اگر خدانخواستہ کر بھی دیں تو بھانجے بھانجیوں کے چہرے ایسے ہوجاتے ہیں جیسے قبض ہوگئی ہو۔
شادی بیاہوں میں میک آپ زدہ خالاؤں اور بھانجیوں میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات میک آپ کی مقدار دیکھ کر چیخ نکلتے نکلتے رہ جاتی ہے۔
اب کے دور کی خالہ اپنے آپ کو بزرگ ماننے پر تیار نہیں ہوتی ہے۔ بے شک ان کے تمام بچوں کی شادیاں ہوگئی ہوں لیکن وہ اپنے بھانجے بھانجیوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے یا پھر دعائیں دیتی نظر نہیں آئیں گی جیسے دعائیں دینی آتی ہی نہیں ہیں۔
خدانخواستہ میری اس تحریر سے ہرگز ہرگز یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ موجودہ دور کی خالائیں اپنے بھانجے بھانجیوں سے پیار نہیں کرتی ہیں۔ بالکل کرتی ہوں گی لیکن مجھے وہ روایتی خالاؤں والا پیار نظر نہیں آتا ہے۔
اس نفسانفسی کے دور میں ہر شخص کو اپنی پڑی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ابھی بھی ایسی خالائیں موجود ہوں گی جو اپنے بھانجے بھانجیوں کے لیے بھی اتنی ہی فکرمند نظر آئیں گی جتنا اپنے بچوں کے لیے۔۔ میرا سلام ایسی تمام خالاؤں کو۔۔