Sunday, 15 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Dunki Ya Khudkushi

Dunki Ya Khudkushi

ڈنکی یا خودکشی

"ڈنکی" سے شائید کچھ لوگ واقف نہ ہو لیکن گجرات، سیالکوٹ، منڈی بہاوالدین، راولپنڈی، میانوالی، چکوال کے لوگ اس سے بخوبی واقف ہوں گے۔ تارکینِ وطن کو غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں تک لے جانے کے عمل کو پنجابی میں ڈنکی کہا جاتا ہے اور یہ کام کرنے والے ڈنکر کہلاتے ہیں۔ یہ کام آج سے نہیں ہورہا ہے بلکہ سالہا سال سے ہورہا ہے۔ جب دودھ دوروپے کلو تھا لوگ اس وقت بھی مہنگائی سے تنگ تھے اور دوبئی چلو کے نعرے لگتے تھے۔ لوگ بحری جہازوں میں کنٹینروں میں بند ہوکر سفر کرتے تھے اور اکثرو بیشت دم گھٹنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ یہ ساٹھ ستر کی دہائی کی بات تھی۔ اس کے بعد لوگ یونان اور اٹلی کے چکر میں پڑگئے کہ وہاں پہنچ کر پورے یورپ میں جاسکیں گے۔

میں اپنے لیبیا میں قیام کے دوران بہت سے ایسے لوگوں سے ملا جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اٹلی جانے کے لیے کوشش کی تھی اور ان سے میری تفصیلی گفتگو بھی ہوتی رہتی تھی۔ یاد رہے کہ ان دنوں نائین الیون کے حادثے کی وجہ سے ڈالر کا ریٹ بھی ستاون اٹھاون ہی رہتا تھا اور پٹرول کی قیمت بھی تیس بتیس تھی۔

لوگ ایجنٹس کو ہزار ڈالر تک دے کر لیبیا پہنچتے تھے جہاں انہیں بتایا جاتا تھا کہ ائیرپورٹ کے باہر سے ٹیکسی ملے گی جو اٹلی اٹلی کے نعرے لگا رہے ہوں گے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایجنٹ حضرات ادھر بیس پچیس لوگوں کا گروپ بناکر، ان میں سے جو تھوڑا بہت ڈرائیونگ وغیرہ جانتا ہو اسے کمپاس (سمت دیکھنے کا آلہ) کا استعمال بتا کر، کشتی کا سٹئیرنگ پکڑا دیتے ہیں۔ کشتی میں بیٹھنے سے پہلے مسافروں کا تمام سامان رکھوالیا جاتا ہے اور وہ صرف دو کپڑوں میں کشتی میں بیٹھتے ہیں (بغیر کسی دستاویز کے)۔ پھر رات کی تاریکی میں کشتی کو نکالا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے سمندر میں سفر کیا ہے وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک پرانی کشتی، رات کی تاریکی، اناڑی ڈرائیور اور تیراکی سے نابلد لوگ کس طرح اپنی زندگی داؤ پر لگانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

اب یہ ان کی قسمت ہے کہ سمندر پرسکون رہے، کشتی اپنی منزل کی طرف بڑھتی رہے اور اٹلی کے ساحل پر ادھر کی پولیس ان پر فائر نہ کھولے بلکہ کچھ دن جیل میں رکھ کر آزاد کردے کہ جاؤ عیاشی کرو یا پھر موسم کی خرابی کے باعث کشتی الٹنے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

ہماری کمپنی میں بہت سے لوگ یہ کوشش کرتے تھے اور ناکامی پر انہیں واپس کمپنی کے حوالے کردیا جاتا تھا جو انہیں فوری طور پر پاکستان بھجوادیتی تھی۔

میں نے ایک بڑی عمر کے ٹیکنیشن سے سوال کیا (جو کشتی خراب ہونے کے باعث آدھے راستہ سے واپس آگیا تھا۔ ان کی تنخواہ ڈھائی سو ڈالر سے لے کر چار پانچ سو ڈالر تک ہوتی تھی، اور ٹائم الگ ہوتا تھا۔ کھانا پینا سب کمپنی کا اور تمام تنخواہ پاکستان کے بینک میں ٹرانسفر ہوتی تھی) کہ معراج صاحب آپ پچاس پچپن کے ہو، ماشا اللہ ادھر ڈالرز میں کمارہے ہو۔ خدانخواستہ اگر ڈوب کر مرجاتے تو بیوی بچوں کا کیا بنتا۔

اس نے ہنس کر میری طرف دیکھا اور بولا "مبشر صاحب آپ یہ سوچو اگر میں ادھر پہنچ جاتا تو کیا ہوتا؟"

"آہو جی! ادھر پیسے درختوں پر لگے ہوں گے اور آپ لوگ اتار اتار کر پاکستان بھیجیں گے" میں نے جل بھن کر جواب دیا۔

ذہن میں رہے کہ یہ بے چارے ڈیڑھ سو ڈالر سے لے کر چار سو ڈالر ماہانہ تنخواہ کے لیے دو ڈھائی لاکھ روپے خرچ کرکے آئے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ پانچ پانچ سال سے واپس ہی نہیں گئے اور ادھر ہی کام کررہے تھے۔

بہت سے عقلمند مزدور ایسے بھی تھے جنہوں نے ادھر قیام کے دوران اپنے گھر بنائے اور پیسہ بھی جوڑا اور کچھ کے خاندان والے سارا پیسہ اجاڑ کر ان سے مزید مطالبہ کر دیتے تھے۔ میں انچارج ہونے کے ناطے انہیں سمجھاتا رہتا تھا۔

مجھے اسلام آباد لیبیا کے سفارتخانے کے باہر بھی لڑکے ملے اور ان سے گپ شپ کے دوران میں نے انہیں اس وقت بہت سمجھایا کہ اٹلی جانا آسان نہیں اور مت لٹاؤ پیسے لیکن ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ پیسے لٹا کر ہی واپس آئے۔

سب سے بڑے دکھ کی بات ہے کہ ان بندوں کے گھر والوں کو سب کچھ پتا ہوتا ہوں اور وہ ادھر بھی کمارہے ہوتے ہیں لیکن باہر جانے کا جنون اور ڈالر، دینار، درہم سب چیزوں پر حاوی آجاتے ہیں اور وہ جانتے بوجھتے اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔

میں یہی نہیں کہتا کہ باہر نہ جاؤ لیکن قانونی طریقے سے جاؤ تو زیادہ اچھا ہے۔ باقی بھارتی لوگ بھی بہت زیادہ دوسرے ممالک میں جاتے ہیں باوجود اس کے کہ ان کی معیشت بھی بہت اچھی ہے لیکن پیسے کمانا ہر کسی کا حق ہے۔ میں خود بھی باہر گیا ہوں لیکن ہمیشہ کسی اچھی کمپنی کے ذریعے اور اچھی طرح سے چھان پھٹک کرکے گیا ہوں۔ دوسری بات کوئی نہ کوئی ہنر اگر ہاتھ میں ہو تو باہر جاکر آپ کے وارے نیارے ہوسکتے ہیں۔ باقی جان زندگی میں ایک ہی دفعہ ملتی ہے اس کو بلاوجہ مت گنوایں۔

Check Also

Khula Tazad

By Dr. Ijaz Ahmad