Diyar e Ghair
دیارِ غیر
حال میں ایک ہندی ترجمہ شدہ فلم دی گوٹ لائف (The Goat Life) پر اتنے زیادہ تبصرے پڑھے کہ مجھے دیکھنی پڑ گئی۔ اس بحث سے قطع نظر حقیقی کہانی کیا تھی! کیا درست تھا اور کیا غلط! یہ سعودی عرب کے خلاف سازش ہے کہ نہیں! لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودیوں سے زیادہ ہم پاکستانی پریشان نظر آرہے ہیں۔ اتنی اتنی لمبی تحاریر کہ بس کمال کردیا ہے۔ ویسے ہم پاکستانیوں کو پاکستان سے زیادہ ایران، افغانستان اور سعودی عرب کی پرواہ رہتی ہے۔
اب آتے ہیں فلم کی طرف۔ یقین کیجیے اس کی شروعات سے دل رکتا سا محسوس ہوتا ہے۔ یہ ہر اس پردیسی کی کہانی ہے جو اپنے ملک کے ایجنٹوں کے ہاتھوں برباد ہوکر دوسرے ملک کے کفیلوں کے ذریعے رگڑا جاتا ہے۔ تمام معاملات میں ایسا نہیں ہوتا ہے لیکن کچھ معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس فلم میں اصل کفیل کی بجائے دوسرا کفیل بھارت سے آئے ایک شخص اور اس کے ساتھی کو بکریوں کی دیکھ بھال کے لیے صحرا میں لے جاتا ہے اور دونوں کو الگ کردیتا ہے۔ ان کا گھر کے لیے تڑپنا اور پھر ادھر جانور جیسی زندگی گزارنا آپ کی روح کو تھرا دےگا۔
میں نے ملک سے باہر سات آٹھ سال گزارے ہیں اور خاص طور پر صحرا میں زندگی گزارنے اور کام کرنے والوں کے حالات سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ فلم وہ ایک پہلو دکھارہی ہے جس سے پہلو تہی ممکن نہیں ہے۔
یہ ہمارے ان نوجوانوں کے لیے بھی ہے جو باہر جانے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ابھی تو اس فلم میں دوسرے پہلو پر روشنی نہیں ڈالی گئی کیونکہ صحرا میں سال ہا سال گزارنے والے بدووں کے نزدیک مرد اور عورت "یکساں حیثیت" رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مومنین مجھ پر برسیں گے لیکن میں نے سائیٹ انچارج کے طور پر کام کیا ہے اور ستائیس اٹھائیس سالہ نوجوانوں کی اپنی عزت محفوظ رکھنی کی درخواستیں بھی سنی ہیں۔ جو میرے پاس کیسٹس میں محفوظ ہیں۔ میری صبح بھی گالی سے ہوتی تھی اور رات بھی گالی سے۔ میرا ڈرائیور میری گالیاں سن سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتا رہتا تھا لیکن پھر ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کچھ لوگوں کو موٹی موٹی گالیاں دینےکے بعد کہنے لگا "سر جی! آپ بالکل ٹھیک گالیاں دیتے ہیں۔
یقین کیجیے ریگستان میں لگاتار سال ہا سال گزارنے والے عام انسانوں میں رہنے کے قابل نہیں رہتے ہیں وہ بہت سی علتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ صحرا میں ملازمت کرنے والے دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیےلازمی ہوتا ہے کہ تین سے چھ مہینے یا ایک سال کے بعد چھٹی لے کر گھر جائیں لیکن بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان وغیرہ کا مزدور طبقہ دو دو اور کچھ پانچ سال تک ادھر ہی رہتے ہیں اور بہت سی علتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں جب واپس پاکستان آیا تھا تو مجھے لوگ کہتے تھے کہ "یار! تیری زبان بہت گندی ہو چکی ہے۔ تو بغیر گالی کے بات ہی نہیں کرتا ہے۔ " پھر میں نے اپنے لب و لہجے پر غور کیا تو واقعی ایسا ہی تھا اور مجھے مہذب لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے میں ایک عرصہ لگا۔
بات دوسری طرف چل نکلی ہے لیکن میں ایسے بہت سے لوگ دکھا سکتا ہوں جن کے ساتھ بہت برا ہوا تھا اور ہوسکتا ہے میری اس تحریر پر لعنت و ملامت کے ساتھ ساتھ لوگوں اپنے یا اپنے عزیزوں کے ساتھ ایسی وارداتوں کے بارے میں بتائیں گے۔ اگر آپ کسی بھی جگہ بالخصوص سعودی عرب جانا چاہتے ہیں تو عربی زبان سیکھ کر جائیں۔ اگر آپ کو عربی آتی ہوگی تو بہت سی مشکلات سے آپ بچ جائیں گے۔ کفیل کا نظام واقعی میں بہت ظالمانہ ہے کہ اگر آپ ایمرجنسی میں گھر آنا چاہتے ہیں اور کفیل غیر ملک کے دورے پر ہے تو آپ پھنسے رہیں گے۔
بڑی بڑی کمپنیز میں ایسا نہیں ہے لیکن بے چارہ مزدور طبقہ اس ہی میں پھنسا رہتا ہے۔ شہروں میں رہنے والے کچھ سعودیوں میں کچھ خوف خدا پیدا ہوگیا ہے اور عجمیوں پر رحم کرتے ہیں لیکن بہت سے خاص طور پر بدو جو ابھی بھی صحراؤں میں رہتے ہیں ان کا سلوک عجمیوں کے ساتھ جانوروں والا ہوتا ہے۔ آپ ادھر عرصہ دراز مقیم لوگوں سے ایسے ایسے قصے سنیں گے کہ آپ کی روح کانپ جائے گی کہ حرمین شریفین میں ایسے کام بھی ہو رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب ہمارا بہت اچھا دوست ہے اور تمام ممالک سے بڑھ کر ہماری مدد کرتا ہے لیکن کچھ حقیقتوں کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے ناکہ اس کے خلاف ڈنڈا لے کر کھڑے ہو جائیں۔ اب کم از کم سعودیہ اس پہلو کی طرف بھی سوچے گا اور ہوسکتا ہے اس کے برتاؤ میں فرق نظر آئے۔