Sunday, 15 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Bachpan Ki Barishen

Bachpan Ki Barishen

بچپن کی بارشیں

ہمارے بچپن میں ہمارا علاقہ لودھراں ضلع ملتان کی ایک تحصیل ہوتا تھا (ماشااللہ سے اب ضلع بن چکا ہے) اور ملتان کے بارے میں تو آپ لوگوں نے سنا ہی ہوگا کہ۔۔ گرد، گرما، گدا و گورستان۔۔

تو جناب ہمارا شہر گرد اور گرما میں ملتان سے بھی دو ہاتھ آگے ہی تھا۔ مجال ہے جو کبھی بارش ہوجائے۔ موسم گرما کی چھٹیاں ہوتی تو ہماری نگاہیں آسمان ہی پر ٹکی رہتیں کہ شاید بادل کا ٹکڑا نظر آجائے لیکن سفید سفید بغیر پانی کے بادل ادھر ادھر اڑتے نظر آتے اور بارش کے آثار بھی مفقود ہوتے تھے۔

ہم یار دوست اکثر مکوڑوں کو پکڑ کر ان کی ٹانگ دھاگے کی مدد سے اپنے محلے کے اکلوتے کھمبے سے باندھ دیتے کہ اب یہ بارش کی دعا کرےگا تو بارش ہوگی لیکن اکثر اس کو بزرگوں کی ڈانٹ سن کر آزاد کرنا پڑتا تھا۔

عصر کے بعد ہم تمام بچے اپنے گھر کے سامنے والی سو فٹ سے زیادہ چوڑی کچی گلی میں جمع ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر گول چکر کاٹتے ہوئے یہ گاتے "اللہ میاں! مینہ (بارش) دے۔۔ دیگڑی (دیگچی) میں گھی دے۔۔ کالے پتھر کالے روڑ (پتھر) مینہ برسادے زورم زور۔۔ زور م زور۔۔ زورم زور۔۔ اس زورم زور میں ہم چکرا کر گرجاتے۔۔ " لیکن بادلوں کو کوئی ترس نہ آتا۔۔

گرمی دانوں سے ہم سب کی کمریں اور سینے بھرے ہوتے تھے لیکن ہم اس گرمی میں بھی باہر کھیلنے سے باز نہ آتے تھے۔

مجھے ویسے بھی دوپہر کو نیند کم ہی آتی تھی اس لئے اپنے چوبارے کے بڑی سی بالکونی میں لٹکا رہتا یا پھر نیچے چبوترے پر لگے ٹین کے چھجے کے نیچے بیٹھ کر اپنے دوستوں کی راہ تکتا رہتا کہ شائید کسی کو اس کڑی دوپہر میں باہر آنے کی اجازت مل جائے۔

ایک ایسی ہی دوپہر کو میں بالکونی میں لٹکا ہوا تھا کہ مجھے شمال کی طرف سے کالی گھٹا امنڈتی نظر آئی۔ میں نے سوچا یہ کالی آندھی ہوگی جو اکثروبیشتر گرمی کا زور ختم کرنے کے لئے آجاتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں میں نے زمین پر سے گرد اٹھتے دیکھی جیسے بے شمار لوگ دوڑے چلے آرہے ہوں۔ جی جناب یہ بادل ہی تھے جو دور سے پانی برساتے آرہے تھے اور تپتی ہوئی سوکھی زمین سے یہ دھواں سا اس برستے پانی کا نتیجہ تھا۔

"یاہ۔۔ و" کا نعرہ مستانہ میرے منہ سے برآمد ہوا اور میں نے سب بہن بھائیوں کا جگایا۔ ہمارے دوست بھی کچھوں میں ملبوس نیچے گلی میں جمع ہوکر انھے وا بھاگ رہے تھے۔ بڑے لوگ دھوتی اور بنیان میں ملبوس بارش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ تمام ماؤں نے اپنے پانچ چھ سال کے بچوں کو فطری لباس ہی میں نہانے کے لئے بارش میں دھکیل دیا تھا کہ گرمی دانے ختم ہوجائیں گے۔ سارا محلہ گلی میں جمع ہوکر نہا رہا تھا اور خواتین چھت پر یا صحن میں بارش سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔

بارش تیز سے تیز تر ہورہی تھی اور گلی پانی سے بھر چکی تھی۔ ہمارے پکے گھر گلی سے بہت اوپر تھے اس لئے بارش کا پانی گھروں میں بالکل نہیں آتا تھا۔ اب ہم نے گلی میں موجود پانی میں پیراکی شروع کردی۔ اگر یہ آج کل کا زمانہ ہوتا تو چھترول لازمی ہونی تھی کہ گندہ پانی ہے لیکن اس وقت کوئی ایسی کہانی نہیں ہوتی تھی۔

محلے کے ایک چچا نے سکے اچھال اچھال کر پانی میں پھینکنے شروع کردیے اور ہم سب بچے دیوانہ وار پانی میں ڈبکیاں لگا لگا کر سکے ڈھونڈنے لگے۔

اتنے میں امی کا پیغام آیا کہ کمرے کی چھت میں پرنالے کے پاس سوراخ ہوگیا ہے اور اس سے بارش کا پانی کمرے میں آرہا ہے۔ اب ہماری فوج نے "کسی\کدال" سے لیس ہوکر، مٹی کو چھوٹے تسلوں میں ڈال کر، اوپری چھت پر چڑھ کر پرنالے کے قریب موجود سوراخ میں ڈال کر اسے بند کرنے کے بعد، وہیں بارش میں نہانا شروع کردیا کیونکہ ہمیں سب سے اوپر والی چھت پر بارش اور آندھی میں جانے کی بالکل اجازت نہیں تھی۔

باورچی خانے کی چھت بھی ٹپک رہی تھی تو ہم نے رضاکارانہ طور پر وہاں بھی مٹی ڈالنے کی پیشکش کی لیکن امی بھانپ گئیں کہ ان لوگوں کا اوپری چھت سے اترنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اس لئے انہوں نے ہمیں باورچی خانے کے پرنالے کو صرف صاف کرنے کا کہہ کر کچھ دیر میں نیچے اترنے کا حکم صادر فرمادیا۔۔

اب بارش دھیمی پڑچکی تھی اور گھروں سے پکوڑوں اور گلگلوں کی خوشبو آنی شروع ہوگئی تھی۔ سب بچے اپنے گیلے کپڑے تاروں پر لٹکا کر غسل خانے میں گھس کر نہادھوکر باورچی خانے کے پاس پکوڑوں اور گلگلوں کے لئے جمع ہوچکے تھے اور ان سے سے پیٹ پوجا کرنے کے بعد ٹی وی کے آگے بیٹھ گئے۔

رات کو ہر طرف سے مینڈکوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں اور ہلکی ہلکی پھوار بھی وقفے وقفے سے پڑرہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑوں سے گھگی سی بندھ جاتی تھی اور لگتا ہی نہیں تھا کہ کل یہ گرمیوں کی حبس زدہ رات تھی۔ بقول بڑوں کے یہ جمعرات کی جھڑی ہے اور جمعرات ہی کو ختم ہوگی۔

ہمارے چوبارے پر دونوں کمروں میں دو دو دروازے تھے، ایک دروازہ برآمدے اور دوسرا باہر بڑی سی بالکونی میں کھلتا تھا۔

اس کے علاوہ چار کھڑکیوں اور چھے روشن دانوں کے ساتھ ہمارے کمرے سمجھ لیں ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے ہوائی جہاز تھے جس کے چاروں طرف سے ہوا آجارہی ہوتی تھی۔

رات کو جب بارش آجاتی تو پھرتی سے تمام لوگ چارپائیوں کو ڈیوڑھی، برآمدے یا پھر صحن میں دیوار کے ساتھ لگا کر کھڑا کردیتے۔ جب بارش رک جاتی تو اکثر لوگ برآمدے یا کمرے میں کھڑکیاں کھول کر سوجاتے۔ لیکن میں ہمیشہ اپنی چارپائی بارش کے بعد صحن میں دوبارہ بچھا لیتا اور ایک ہلکی سی چادر اپنے اوپر اوڑھ لیتا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور آسمان پر اڑتے بادلوں کو چاند کے آگے سے گزرتا دیکھنا میرا من پسند مشغلہ ہوتا تھا اور اس پر مستزاد گیلی چارپائی میں سے آتی بانس کی خوشبو ایک الگ ہی سماں باندھ دیتی تھی۔ کبھی وہ بادل بھالو اور کبھی پہاڑ کا روپ دھارتے اور میں یہ آنکھ مچولی دیکھتے دیکھتے سوجاتا۔

لیکن کبھی کبھار اس آنکھ مچولی میں اچانک بادل چاند کو مکمل طور پر گھیر لیتے اور تیز بارش شروع ہونے پر میں چارپائی سمیت اندر کی طرف دوڑ لگادیتا۔ (اب رات کو بارش ہورہی ہوتی ہے تو ہم اے سی چلاکر سوئے ہوتے ہیں اور پتا بھی نہیں لگتا کہ بارش آئی تھی اور چاند بادلوں کی آنکھ مچولی بھی ہوئی تھی۔)

صبح اٹھ کر تھوڑا بہت سکول کی چھٹیوں کا کام کیا جاتا تو اتنے میں نیچے سے ہمارے دوست کدو کی آواز آتی اور ہم نیچے پہنچ کر گڑھوں میں موجود پانی میں مچھلیاں ڈھونڈتے۔ ہم اس میں تیرتے کالے رنگ کے مینڈکوں کے بچوں کو کالی مچھلیاں ہی سمجھتے تھے اور بڑے شوق سے شیشے کی بوتل میں بند کرکے گھر لے آتے لیکن امی ابو کے سمجھانے پر بڑی مشکل سے گڑھوں میں واپس چھوڑ آتے۔

ہم جوہڑوں اور سڑک کنارے پانی کے اوپر ٹھیکری (یہ عموماً گھڑے کا ٹوٹا ہوا حصہ ہوتی تھی) اس طرح پھینکتے کہ وہ ٹھپے (اچھلتی) کھاتی پانی پر سفر کرتی اور جس کی ٹھیکری جتنا زیادہ ٹھپے کھاتی وہ جیت جاتا۔

کاغذ کی کشتیاں بنا کر ان کا مقابلہ کروایا جاتا۔ ہم سادہ کشتی، چھری والی کشتی اور بادبان والی کشتی بھی بناتے تھے۔ بلکہ میں پروں والی کشتی بھی بنا لیتا تھا۔

سب بچوں کے گرمی دانے بارش میں نہا کر پھوٹ جاتے تھے اور تیز دھوپ نکلنے پر تنگ کرتے لیکن شام تک دوبارہ بارش ہونے پر سکون آجاتا۔

بعض اوقات یہ برسات کی جھڑی پورا ہفتہ رہتی اور ہم روز اس ہی طرح لطف اندوز ہوتے۔

اگر بیروں کے موسم میں رات کو بارش ہوتی تو ہم صبح صبح اٹھ کرنیچے کچے صحن کی طرف دوڑتے جو بیروں سے بھرا ہوتا تھا۔ ہم بیر جمع کرکے، صحن میں موجود نلکے سے دھو کر، کچھ بیر دادی مرحومہ (اللہ مغفرت کرے آمین) کو دیتے اور ڈھیروں دعائیں سمیٹ کر ابو اور امی(اللہ میرے والدین کی مغفرت کرے آمین) کو بھی دے کر ان سے بھی دعائیں لیتے۔

اب بارش ہو تو فکر پڑجاتی ہے کہ بجلی چلی گئی تو کیا بنے گا۔ ٹینکی بھری کہ نہیں؟ گلیوں میں یا سڑکوں پر پانی کھڑا ہونے پر کاروبارزندگی رکتا نظر آتا ہے۔ بارش رکنے کے بعد حبس سے گھبرا کر اے سی چلا کر کمروں میں سویا جاتا ہے۔

قسم سے وہ وہ کھلے کھلے صحنوں والے گھر اور چاند اور بادلوں کی آنکھ مچولی بہت یاد آتی ہے لیکن اب ہم آسائشوں کے بہت عادی ہوگئے ہیں اور شاید دوبارہ صحنوں یا برآمدوں میں نہ سو سکیں۔۔

آخر میں ﺯﺭ ﮔﺰﺷﺖ (ﻣﺸﺘﺎﻕ ﺍﺣﻤﺪ ﯾﻮﺳﻔﯽ) سے اقتباس "ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ﺗﺮﺱ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻨﮕﮯ ﭘﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﮰ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﭽﭙﻦ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮭﻤﺎ ﺟﮭﻢ ﺑﺎﻥ، ﮔﺮﻣﯽ ﺩﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﺑﺪﻥ ﮐﻮ ﺑﺎﮌﮪ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﯽ ﮔﺪﮔﺪﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﺑﺪﻟﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﺒﮭﺎؤ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺭﺍ ﭘﻨﮉﺍ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺮﻣﯽ، ﮔﺮﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﭩﯿﻼ ﭘﻦ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭘﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺪ ﺑﮭﺎؤ ﺟﻮﺗﮯ ﮐﮯ ﺗﻠﮯ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ"۔

Check Also

Kuch Baatein Kitab Melay Ki, Kuch Maile Pan Ki

By Abu Nasr