Thursday, 12 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Safar e Israel

Safar e Israel

سفرِ اسرائیل

ہماری ایک دوست کے شوہر امریکی وزارت خارجہ کے ملازم ہیں۔ وہ بہت سال مشرق وسطی میں تعینات رہے۔ سعودی عرب، مصر، اسرائیل، کئی ملکوں میں باری باری ذمے داریاں انجام دیں۔ ہماری دوست ان ملکوں کی یونیورسٹیوں میں انگریزی پڑھاتی رہیں۔ خود بھی عربی کا کورس کیا اور بقول ان کے، امتیازی نمبروں سے فیل ہوئیں۔ لیکن فیل ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ اصل چیز تو تجربہ ہے۔ جب بھی ان سے کوئی کام کہیں اور ان کا کرنے کا ارادہ نہ ہو تو جھٹ کہتی ہیں، ان شا اللہ۔

میں نے بتایا کہ اسرائیل جارہا ہوں تو انھیں بہت فکر ہوئی۔ لیپ ٹاپ مت لے جانا، ورنہ وہ سارا حساس ڈیٹا کاپی کرلیں گے۔ فون بھی بالکل نیا خریدو تاکہ اس میں انھیں کچھ نہ ملے۔ پاسپورٹ پر کس کس ملک کے ویزے ہیں؟ وہ ساری ہسٹری چیک کریں گے۔ ایران تو نہیں گئے کبھی؟ انھوں نے وہاں کا ویزا دیکھا تو پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے۔ کیا پتا، لاپتا ہی کردیں۔ تمھارے تو گھر والے اسرائیل جاکر ڈھونڈ بھی نہیں سکیں گے۔

میں نے انھیں تسلی دی کہ میرے لیپ ٹاپ میں کوئی حساس ڈیٹا ہے ہی نہیں جو کوئی کاپی کرسکے۔ فون میں سوائے مس کالز کے کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔ پاسپورٹ الحمداللہ بالکل سادہ ہے کیونکہ سات سال تک امریکا میں جم کر بیٹھا رہا۔ کہیں گیا ہی نہیں۔ ایران کی سیر دو بار کی ہے لیکن وہ پرانے پاسپورٹ میں کاہے کو لے جانے لگا؟

پھر بھی وہ بہت پریشان کریں گے، انھوں نے زور دے کر کہا۔ امیگریشن افسر بہت سوال کرتے ہیں۔ تمھارا کوئی فلسطینی دوست تو نہیں؟ اگر ہے بھی تو مت بتانا۔

میں اسرائیلی امیگریشن پر پہنچا تو غیر ملکیوں کے لیے صرف ایک کاونٹر تھا جس پر ایک خوبصورت لڑکی بالکل فارغ بیٹھی تھی۔ نہ میرے آگے کوئی اور نہ پیچھے۔ میں نے پاسپورٹ اور ویزا دکھایا تو بہت حیران ہوئی کہ یہ پاسپورٹ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ پھر ایک اسٹیکر پرنٹ کرکے دیا کہ چاہے تو پاسپورٹ پر چپکالیں یا بٹوے میں رکھ لیں۔ میں نے پوچھا، بس؟ کیا جاوں؟ کہنے لگی، تو کیا میں باہر تک چھوڑنے ساتھ چلوں؟

شراکہ والوں نے ہوٹل پہنچانے کے لیے اپنا بندہ بھیجا تھا۔ روبیل سگی اس کا نام تھا۔ سگی نہ آتا تو ہوٹل پہنچنا مشکل تھا کیونکہ ہفتے کی دوپہر تھی۔ یہودی جمعہ کی شام سے ہفتے کی شام تک کوئی کام نہیں کرتے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہوتی ہے۔ فون نہیں سنتے۔ چولھا نہیں جلاتے۔ الیکٹرونک آلات آن آف نہیں کرتے۔ یہ ہفتے ہی کا دن تھا کہ اسرائیلی فوج حالت سکون میں تھی اور حماس والوں نے اندر گھس کر حملہ کردیا تھا۔ ہفتے کے سوا کسی اور دن ایسا حملہ کرنا ممکن نہ تھا۔

سگی دروازے کے باہر گاڑی سمیت موجود تھا۔ جسم تھوڑا بھاری اور سر پر بال غائب۔ لیکن چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے رہتا ہے۔ میں نے پوچھا، یہودی ہو؟ کہا، ہاں یہودی ہوں۔ تو پھر ہفتے کو کیسے کام کررہے ہو؟ میں ہر دن کام کرتا ہوں۔ شراکہ کے تمام مہمانوں کو لانا لے جانا میری ذمے داری ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسے ایک ڈرائیور سے کچھ زیادہ درجہ حاصل ہے۔ اسے ہمارے ہوٹل میں کمرا دیا گیا تھا تاکہ مہمانوں کو ضرورت پڑے تو دستیاب رہے۔ ففٹین سیٹر ہائی ایس اس کی اپنی تھی۔ اس کی سب سے خوبی یہ تھی کہ گاڑی میں وائی فائی چلتا تھا۔ فی زمانہ کسی غریب الوطن کو اس سے بڑی سہولت نہیں دی جاسکتی۔

اسرائیل کا رقبہ بہت زیادہ نہیں۔ پورے ملک میں صرف ایک ائیرپورٹ ہے جو تل ابیب اور یروشلم کے درمیان واقع ہے۔ وکی پیڈیا پر آپ کو چار مزید ائیرپورٹس کے نام ملیں گے لیکن ان پر کبھی کبھار ہی پروازیں اترتی ہیں۔

بن گورین ائیرپورٹ سے شہر جاتے ہوئے عجیب سا احساس ہوا۔ بالکل ویسی ہی سڑکیں اور گاڑیاں جیسی ہمارے ہاں ہوتی ہیں۔ ویسی ہی عمارتیں اور گھر جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ ویسے ہی درخت اور سبزہ۔ لوگ بھی بالکل ہم جیسے، یعنی گوشت پوست کے بنے ہوئے۔ یہ خیال غلط ثابت ہونے پر تکلیف ہوئی کہ اسرائیل کے درختوں پر ڈالر اگتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹینک اور فضا میں لڑاکا طیارے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر شخص کے ماتھے پر سازشی کوڈورڈز لکھے ہوتے ہیں۔

میں نے سوچا، کاش خمینی اور مودودی کے زمانے میں شراکہ ہوتی اور انھیں یہاں مدعو کرتی۔

Check Also

Background Dancer

By Khateeb Ahmad