Noah Harari Aur Richard Dawkins Ki Nayi Kitaben
نواح حریری اور رچرڈ ڈاکنز کی نئی کتابیں
ستمبر میں یووال نواح حریری کی کتاب نیکسس اور رچرڈ ڈاکنز کی کتاب جینیٹک بک آف دا ڈیڈ آگے پیچھے شائع ہوئیں۔ حریری کی کتاب کا بہت شہرہ ہوا اور فوراََ اردو میں ترجمہ بھی چھپ گیا۔ ڈاکنز کی کتاب کا اس طرح ذکر نہیں ہوا اور معلوم نہیں کسی نے اسے ترجمہ کرنے کے بارے میں سوچا بھی یا نہیں۔
ڈاکنز کی مقبولیت یا بدنامی کی وجہ ان کے ملحدانہ خیالات ہیں لیکن اصل میں وہ بایولوجسٹ یعنی ماہر حیاتیات ہیں۔ ان کی پہلی کتاب، جس سے ان کی عالمی شہرت کا آغاز ہوا، سیلفش جین تھیں۔ اس کے اڑتالیس سال بعد بھی وہ کام میں لگے ہوئے ہیں اور اس موضوع پر دس بارہ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ نئی کتاب اسی تسلسل میں ہے۔
ویسے تو دلچسپی رکھنے والوں کو کتاب پڑھنی چاہیے لیکن میں دو تین نکات کا ذکر کردیتا ہوں جو مجھے مزے کے لگے۔ سب سے اہم یہ کہ ارتقا کے بعد جانداروں کی جو نسلیں آج موجود ہیں، ان کی جینز سے قدیم نسلوں کا سراغ ملتا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ انھیں کتاب کی طرح پڑھا جاسکے گا۔
ڈاکنز کے مطابق جانداروں کی کھال اور جسم کی بناوٹ سے ان کے ماضی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس ماحول میں رہے۔ جس طرح ماضی میں چمڑے پر لکھ کر مٹادیا جاتا تھا اور نئی تحریر لکھ دی جاتی تھی، یہی صورت جانداروں کی کھال اور جسم کی ہے۔ اب ڈی این اے اور مائیکروبایوجی مزید انکشافات میں مدد کرتی ہے۔
ڈاکنز نے مثال دی کہ جب وہ انڈر گریجویٹ طالب علم تھے تو انھیں پڑھایا گیا کہ دریائی گھوڑے کا قریب ترین رشتے دار سور ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اس کا قریبی رشتہ وہیل سے ہے۔ اس کا شاید کسی کو پہلے اندازہ نہیں تھا۔
ڈاکنز نے لکھا ہے کہ بعض جاندار پانی سے خشکی پر آئے، پھر پانی میں چلے گئے، پھر باہر آگئے۔ انھوں نے سب سے بڑی مثال کچھووں کی دی اور ان کے ارتقا کے مراحل کے ساتھ تصویریں بھی شامل کی ہیں۔
یہ بات مجھے معلوم تھی کہ کوئل گھونسلا نہیں بناتی اور دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہے۔ لیکن ڈاکنز کی کتاب سے معلوم ہوا کہ کوئلوں کی مختلف قسمیں مختلف رنگوں اور حجم کے انڈے دیتی ہیں جو دوسرے پرندوں کے انڈوں جیسے ہوتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہر کوئل کو فطری طور پر علم ہوتا ہے کہ اس کا انڈا کیسا ہوگا اور وہ ویسے ہی انڈے دینے والے پرندے کے گھونسلے میں جاتی ہے۔
ڈاکنز یہ پیچیدہ بات کرتے ہیں کہ ارتقا کا واحد ذمے دار جین ہوتا ہے اور جاندار نہیں۔ ان کی اس بات سے بہت سے ماہرین حیاتیات متفق نہیں ہیں۔ لیکن ان کے کام کو بہرحال سب ہی سراہتے ہیں۔
کتاب کی قیمت صرف پینتیس ڈالر ہے جو ایمیزن پر رعایت کے بعد انتیس ڈالر میں دستیاب ہے جبکہ کنڈل ورژن سترہ ڈالر میں مل جائے گا۔ لیکن میں آپ کو یہ کیوں بتارہا ہوں؟ گوگل کریں اور مفت میں انعام پائیں۔ ویسے تو ڈاکنز صاحب خود اتنے دیالو ہیں کہ اپنی کتابوں کے اردو اور دوسری زبانوں میں ترجمے اپنی ویب سائٹ پر خود مفت بانٹتے ہیں۔