Meethi Eid
میٹھی عید
لفظ عید عاد، یعود سے مشتق ہے۔ عود کے معنی پلٹ آنے یا لوٹ آنے کے ہیں۔ عید چونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے۔ اس لیے اس کا نام عید پڑ گیا۔ لسان العرب میں لکھا ہے "عید کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مغفرت کی نظر ڈالتا ہے اور عید کے معنی چونکہ توجہ کرنے کے بھی ہیں اسی لیے اصطلاحی معنوں میں اسے عید کہتے ہیں۔ جبکہ فطر کے معنی افطار کرنا یا روزہ کھولنا ہے۔ عیدالفطر کو چھوٹی یا میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے"۔
ہر قوم کا کوئی نہ کوئی ایسا دن ضرور ہوتا ہے جس میں لوگ خوشیاں مناتے ہیں جیسے ہندوؤں کی ہولی، عیسائیوں کا بڑا دن جسے کرسمس کے نام سے منایا جاتا ہے اور مسلمانوں کی عید جس میں سب لوگ خوشیاں مناتے اور زینت کا اظہار کرتے ہیں۔
مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم نے اپنے ایک مضمون میں اسلامی عید کی اہمیت و حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔
"اسلام نے اپنی عید کے لیے اجرام فلکی کے انقلابات، ستاروں کے طلوع و غروب اور چاند کے مختلف کرشموں کو بنیاد قرار نہیں دیا کیونکہ یہ تمام رسومات بت پرستوں کی علامات ہیں۔ مذاہب اسلام مادہ پرسیت سے ماورا ہے۔ وہ دنیا میں دائمی توحید کی آواز بلند کرنے کے لیے آیا ہے۔ وہ خداۓ واحد کا پرستار ہے اور اس کے سوا آسمان و زمین کے کسی سورج، کسی چاند، کسی آواز بلند کے لیے آیا ہے۔
وہ خداۓ واحد کا پرستار ہے اور اس کے سوا آسمان و زمین کے کسی سورج، کسی چاند، کسی قوم، کسی درخت اور کسی پتھر کو اپنا معبود نہیں بنایا اس لیے اس نے اپنے لیے کسی تاریخی فتح اور قومی نجات کے دن کو بطور تہوار منتخب نہیں کیا یہاں تک کہ فتح مکہ کا دن بھی اس کا تہوار نہیں اس نے اپنی ملت کو عمومی خوشی کے لیے وہ دن منتخب کیا جو نزول وحی کے مہینے (رمضان المبارک) کے ختم ہونے کے بعد آیا۔ "
حضرت انس سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لاۓ تو ان کے ہاں سال بھر میں دو دن اس قسم کے تھے جن کو وہ کھیل کود اور تفریح کا دن خیال کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے اس کی حقیقت دریافت کی تو کہنے لگے کہ عہد جاہلیت سے یہی دستور چلا آتا ہے کہ ان دنوں میں ہم خوشی مناتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے تم کو ان دو دنوں کی بجاۓ اس سے بہتر نعم البدل عنایت فرماۓ ہیں عیدالفطر کا دن اور عیدالاضحیٰ کا دن"۔
شوال اسلامی کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے یکم شوال کو عیدالفطر منائی جاتی ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، مسواک کرنا، نیا یا دھلا ہوا صاف ستھرا لباس پہننا، عطر یا خوشبو لگانا، صبح سویرے اٹھنا، موافق شرع اپنی آرائش کرنا، عیدگاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھانا، عیدگاہ جلد پہنچنے کی کوشش کرنا، نماز عید ادا کرنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا، عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھنا، عیدگاہ کی طرف جاتے ہوۓ اور واپس آتے ہوۓ راستہ بدلنا، خطبہ عید سننا، عیدگاہ جاتے اور واپس آتے وقت راستہ میں تکبیریں پڑھنا مسنون اعمال میں سے ہے۔
صدقہ فطر کی ادائیگی بروقت لازم و ملزم ہے۔ ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر، روزے دار کو بیہودگی اور فخش باتوں سے پاک کرنے کے لیے نیز محتاجوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے فرض کیا ہے، جس نے نماز عید سے پہلے ادا کیا اس کا صدقہ فطر ادا ہوگیا جس نے نماز عید کے بعد ادا کیا اس کا صدقہ فطر عام صدقہ شمار ہوگا۔
صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع ہے جو پونے تین سیر یا ڈھائی کلو گرام کے برابر ہوگا۔ صدقہ فطر کے مستحق وہی لوگ ہیں جنہیں زکوٰۃ دی جاتی ہے صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، چھوٹا، بڑا صاحب نصاب پر فرض ہے۔ اس کا مقصد روزے کی حالت میں سرزد ہونے والے گناہوں سے خود کو پاک کرنا ہے۔ علاوہ ازیں عید کے چاند کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ تہوار کچھ اس طرح منایا جاتا ہے۔
عید کے ایک روز قبل رات کو عوام الناس ٹی وی اسکرین پر نظر جماۓ مختلف نیوز چینلز پر رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ سننے کے لیے بےتاب ہو رہی ہوتی ہے کہ اچانک عید کا چاند رات گیارہ بجے نظر آ ہی جاتا ہے "ہاں تو جی ناظرین! عید کا چاند نظر آ گیا ہے کل ملک بھر میں عید ہوگی"۔ یہ خبر سنتے ہی اعتکاف میں بیٹھے ہوۓ لوگوں کا استقبال پھولوں کے ہار پہنا کر کیا جاتا ہے۔ چاند رات کے روز خواتین مہندی لگاتی ہیں پارلروں میں رش بڑھ جاتا ہے فیشل، پارٹی میک اپ، مینیکیور اور پیڈیکیور کرواتی ہیں۔
میٹھی عید کا آغاز میٹھے کھانے سوئیاں، کجھور، ٹرائفل وغیرہ سے کیا جاتا ہے۔ بازاروں، گلیوں، گھروں میں رونقیں عید کی بدولت ہوتی ہیں۔ نت نۓ لباس میں ملبوس عید کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے اور اپنے دائیں بائیں بیٹھے لوگوں سے ملتے ہیں عید مبارک کہتے ہیں۔ بچیاں رنگین چوڑیاں پہن کر، تیار ہو کر اپنے بڑوں سے عیدی لیتی ہیں۔ اس روز مہمانوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ لذیذ پکوان پکاۓ جاتے ہیں راتوں کو باربی کیو بھی کیا جاتا ہے۔
ہر عید پر ٹیلی ویژن پر ٹیلی فلمز چلائی جاتی ہیں سیر و تفریح، میلے ٹھیلے، اسٹالز لگاۓ جاتے ہیں۔
سورج کی کرنوں کی طرح ہر طرف خوشیوں کی لہر پھیل جاتی ہے۔