Zid Alamgiriat Ki Mukhalfat Kyun?
ضد عالمگیریت کی مخالفت کیوں؟
چونکہ سوال ایک مستند دانشور نے کیا ہے جو کبھی بائیں بازو والوں کے ساتھ نظری و عملی طور پر شیر وشکر ہوا کرتے تھے، ویسے ہی جیسے یہ فقیر، کہ عالمگیریت یعنی Globalization کی مخالفت کیوں کی جائے تو مجھے جواب دینا ہی ہوگا۔
ابتدا سے ہی کھول دوں کہ میرا جواب میرے اپنے لیے بھی حتمی اس لیے نہیں ہوگا کیونکہ اب دنیا کے رموز و اوقاف بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں بعض اوقات اس قدر تیزی کے ساتھ کہ فرد تو فرد رہا، تنظیمیں بھی مطابقت پیدا کرنے یا توازن برقرار رکھنے میں یا تو کامیاب نہیں ہو پاتیں یا لڑکھڑا کے رہ جاتی ہیں، اس لیے میرے موقف سے دوسرے بھی اختلاف کریں تو مجھے اچنبھا نہیں ہوگا۔
عالمگیریت (تحریر میں Globalization کے لیے اب عالمگیریت ہی برتا جائے گا) نظام سرمایہ داری کی تا حال معراج ہے جو مارکس کے مطابق سرمایہ داری کی جڑت یعنی کارپوریشنوں، جن میں ٹرانس نیشنل یعنی TNCs اور ملٹی نیشنل یعنی MNCs دونوں شامل ہیں، کے وجود پا جانے کے بعد سرمائے کی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی دوسروں ملکوں میں جڑیں گہری کیے جانے کے عمل کے بعد وقوع پذیر ہوئی یعنی معراج۔ چنانچہ یا تو آپ مان لیں کہ نظام سرمایہ داری انسانیت کی بھلائی کا راستہ ہے، تب تو آپ کو اس کے کسی عمل کی مخالفت ہی نہیں کرنی چاہیے یوں ہمارے دانشور دوست کا سوال ساقط ہو جاتا ہے۔
البتہ اگر آپ نظام سرمایہ داری کو انسانیت کی بھلائی کا نظام سمجھے جانے سے متفق نہیں تو آپ کو اس نظام کی توسیع و ترویج کی راہ میں رکاوٹ بننے کا کوئی بھی منظم موقع میسر آئے تو اس کا حصہ بننے میں قباحت نہیں ہونی چاہیے۔
عالمگیریت کی نفی صرف بائیں بازو والے ہی نہیں کرتے بلکہ نراجیت پسند بھی کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات خود سرمایہ داری کے اگوان بھی کرتے ہیں لیکن جزوی طور پر اور یک طرفہ جیسے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے موجودہ صدر نے ایک طرح سے کی کہ دوسروں ملکوں میں صنعت کاری (سرمایہ کاری) سے امریکہ کی صنعت بیٹھ گئی اس لیے ایک تو باہر کے ملکوں کا مال نہیں آنا چاہیے دوسرا ملک میں موجود صنعتوں کو ترقی دینے کے لیے یا پھر سے چالو کرنے کے لیے امریکہ میں ہی سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
سب جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں موٹر سازی کی صنعت کا گڑھ ڈیٹرائٹ اب بھوتوں کا مسکن یعنی Ghost City بن چکا ہے۔
لیکن ہم نہ تو سرمایہ داری کے حامیوں کے جزوی طور پر ضد عالمگیریت ہونے کی بات کر رہے ہیں اور نہ ہی نراجیت پسندوں کے ریاست مخالف ہونے کے سبب عالمگیریت میں حصہ بننے والی ریاستوں کی مخالفت کرنے کی بات کر رہے ہیں بلکہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ معاشی و سماجی نظام کو انسانیت دوست نظام میں ڈھالے جانے کے حامیوں کو عالمگیریت کی مخالفت کرنی چاہیے۔
آئیے پہلے کلاسیکی اصطلاحوں میں بات کر لیتے ہیں۔ عالمگیریت مقامی طور پر ابھر کر مضبوط ہونے والی سرمایہ داری یعنی Nascent Bourgeoisie کو پنپنے نہیں دیتی بلکہ مقامی سرمایہ دار کو طفیلی سرمایہ دار یعنی Compradore Bourgeoisie بننے کی جانب راغب کرتی ہے جس کا ملک و قوم کی ترقی کی جانب رجحان نہیں ہوتا بلکہ اس کا وصف ہوتا ہے کہ لوگوں کو جس قدر اور جتنی دیر تک پسماندہ رکھا جا سکتا ہے رکھیں، عالمی سرمایہ داری کا طفیلی بن کے جس قدر زیادہ کمایا جا سکتا ہے کمائیں، اولاد کو ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم دلوائیں، وہیں ان کے لیے مواقع سے فائدہ اٹھانے کا وسیع تر بندوبست کیا جائے اور اگر کسی قسم کی کوئی افتاد پڑے تو جھٹ سے دوسری شہریت والے ملک کو کوچ کر جائے۔
ایسے سرمایہ دار کسی ملک کی سیاست میں بھی اس لیے پیش پیش ہوتے ہیں کہ اول تو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر قانون سازی میں ممد ہوں دوسرے ان کے کرتوتوں پر پردہ پڑے رہنے کی راہ ہموار ہوتی رہے۔ اس کے برعکس اگر کسی ملک میں عالمگیریت کا جن نہ کود پڑا ہو تو مقامی طور پر ابھرنے والا سرمایہ دار ملک و قوم کی بھلائی کے راستے کھولنے کا گنہگار بھی ہوتا ہے کہ یونیورسٹیاں بنوا دیں، تحقیقاتی مراکز کھلوا دیے، ہسپتال تعمیر کروا کے چالو کروا دیے، ان سب سے ان کا مالی منافع تو بڑھتا ہی ہے لوگوں کو بھی سہولتیں اور مواقع میسر آتے ہیں۔
طبقہ وسط کی تعداد اور استعداد میں اضافے کے راستے ہموار ہوتے ہیں یوں مقامی سرمایہ لوگوں کو کسی حد تک خوش حال بنا کرکے اپنے مزدوروں کی سرکشی کو ابھرنے نہیں دیتا۔ ساتھ ہی روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرکے نیم منظم اور غیر منظم دہاڑی داروں یا مائل بہ جرم کم حیثیت افراد یعنی Lumpen Proletariat کے حجم کو بھی کم کیے رکھتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ پڑھا لکھا متوسط طبقہ ایسے افراد بھی سامنے لاتا ہے جو مزدوروں کو منظم کرتے ہیں اور ان کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنے اور ان میں اضافہ کرنے کے مطالبات منوانے کے قابل بناتے ہیں۔
غیر کلاسیکی حوالے سے یہ کہ عالمگیریت کا مقصد سرمایہ دار کارپوریشنوں اور ان کے مالکوں کے لیے بے تحاشہ منفعت کی غرض سے کم ترقی یافتہ، ترقی پذیر یا پسماندہ ملکوں کی سستی مزدوری، قوانین پر عمل درآمد کے فقدان، بدعنوان سیاست دانوں، سخت گیر ریاستی حلقوں سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں سرمایہ دارانہ کارپوریشنوں کا کوئی کردار دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس نوع کی سرمایہ دارانہ عالمگیریت نے ماسوائے صارفین کے سماج Consumer Society کو فروغ دینے کے کلچر کو عام کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔
انہیں کارپوریشنوں کے دم قدم سے آباد کم ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کو مالی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑ دینے والے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی مہربانی سے ان ملکوں میں آبادی کے بہت بڑے حصے کو ہر طرح سے محروم رکھے جانے کا انصرام کیا جاتا ہے۔ ناداروں Have nots کی اکثریت اور تونگر Haves اقلیت کے درمیان وسیع فرق ایسے معاشروں کو آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ نفرت، عدم برداشت، جھوٹ، جرائم، منافقت کو فروغ ملتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ضد عالمگیریت تحریک ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور دلچسپ بات یہ کہ ہے بھی ان بڑے سرمایہ دار ملکوں میں جو سرمایہ دارانہ عالمگیریت کے پیشرو ہیں۔ امکان ہے کہ کورونا کی عالمی وبا کے سبب مستقبل میں پیدا ہونے والے معاشی بحران سے اس تحریک کو فروغ ملے گا۔