Tanqeed Aik Novel Pe
تنقید ایک ناول پہ
پہلے پڑھنے کو ڈین براؤن کا ناول "دی ڈی ونچی کوڈ" اٹھایا، ابھی ابتدائیہ ہی پڑھا جس میں انہوں نے کچھ لوگوں اور دس سے زائد اداروں، تنظیموں اور لائبریریوں، مخطوطہ خانوں کا شکریہ ادا کیا تھا جنہوں نے اس ناول کے سلسلے میں تحقیق میں معاونت کی تھی کہ لگا جیسے پڑھا ہوا ہے۔ تشکر نامہ سے پہلے پروفیسر لینگڈن کا ذکر تھا جس پہ میں چونکا تھا کہ نام شناسا لگتا ہے۔ دو صفحے مزید پڑھ کے یقین ہوگیا کہ پہلے پڑھا ہوا ہے۔
پھر اپنے دوست اور اردو نگار فرانسیسی ادیب ژولیاں کی کہانیوں کی کتاب "دریدا حرامدا اور دوسری کہانیاں اٹھائیں۔۔ پہلے سترہ صفحے پڑھ کے معلوم ہوا کہ یہ کتاب بھی پڑھ چکا ہوں لیکن ژولیاں جو میرا پسندیدہ کہانی کار ہے کی کہانیاں اور عالمی شہرت یافتہ ڈین براؤن کا ناول دی ڈی ونچی کوڈ، دونوں ہی دوبارہ پڑھے جا سکتے ہیں۔
اس سے پہلے ایک اردو ناول تھا جس کے چند صفحہ جستہ جستہ پڑھ کے دل ہی نہیں کر رہا تھا کہ پڑھوں۔ اس لیے نہیں جیسے قراۃالعین حیدر کا آگ کا دریا شروع میں مشکل پسندانہ لگنے کے سبب کئی بار کی ہمت کے بعد پڑھا جاتا ہے اور پھر ایک ایک لفظ پڑھنا پڑتا ہے لیکن یہ ناول اپنے آغاز کی عمومیت کے سبب مطالعہ سے گریز کا خواہاں تھا۔۔ پھر ایسے پڑھنا شروع کیا جیسے بھگا بھگا کے بہت سی ہندی فلمیں پوری سمجھ آ جاتی ہیں ویسے ہی اس ناول میں بھی ہندی فلموں سے اخذ کردہ ہندی الفاظ غالباً اس لیے برتے گئے کہ ہندوستان میں بھی مقبول ہو۔
اگرچہ جس عہد میں اس ناول، جو ناول نویسی نہیں داستان گوئی ہے کہ ناول دی ڈی ونچی کوڈ جیسی تحریر ہوتی ہے جس میں کوئی تاریخی ناول چاہے وہ نیم افسانوی ہو کے لیے بھرپور تحقیق کی جاتی ہے، کی کہانی باندھی گئی تب اگر ہوگی بھی تو اس خطہ میں سنس کرت ہوگی نہ کہ "بہت بڑھیا" جیسی ہندی۔ پھر بارہ سنگھا کو بارہ سنگھا کہا جاتا ہے "دوازدہ سنگھا" نہیں کہ اس داستان میں یونی کارن کو "یک سنگھا" لکھا گیا جب کہ یک فارسی ہے اور سنگھا سنس کرت، ترکیب ہی نہیں بنتی۔
ناول کا بیشتر حصہ ایک زمانے کے ڈائجسٹوں میں پاپولر ادیب محی الدین نواب جیسے لکھنے والوں کی انکا و اقابلا قسم سے ماخوذ تھا، وہی انداز وہی بیان۔ اور آخر میں تو باقاعدہ لڑائی کے سین تھے اور ہاں بیچ میں رقص بھی ڈالا گیا تھا بس آئٹم سانگ رہ گیا۔
بہت ہی سطحی ناول ہے البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ادب نہیں، ادب ہے جیسی آج کی نسل ہے، جتنا ان کا اردو ادبی شعور ہے ان کے لیے یہ ناول ٹھیک ہے۔۔
نام نہیں لکھ رہا کہ لکھنے والی شناسا ہیں، مگر کیا کیا جائے جیسا مجھے لگا وہ تو مجھے کہنا تھا سو کہہ دیا کہ ہمارے ہاں تنقید کو تبصرہ سمجھا جانے لگا ہے کہ سب اچھا لکھو جیسے اس کتاب کے بیک فلیپ پہ لکھا ہے۔۔