Ehad Saz, Shoaib Sultan Khan
عہد ساز، شعیب سلطان خان
چند روز پہلے ملتان میں کسی خوش حال شخص نے باور کرایا کہ پاکستان میں پہلے کی سی غربت نہیں رہی۔ دیکھیں نا کہ پہلے پاکستان کے بڑے حصے میں لوگ روٹی کپڑا پہ یا زیادہ سے زیادہ سال بھر کے لیے گندم پہ کام کیا کرتے تھے۔
واقعی ایسا تھا کیونکہ جن وقتوں کی بات ہے تب صارفین کا معاشرہ بھی نہیں تھا۔ چونکہ بات سوسائٹی کی بنت بدلنے کی نہیں ہورہی اس لیے مذکور مظہر کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ خریدو، خریدتے رہو اور خریدتے ہی چلے جاؤ۔۔ اشتہار ہی اشتہار، اشیائے صرف کے فوائد کا پروپیگنڈہ ہی پروپیگنڈہ۔
لیکن خریدے گا تو وہ جو خرید سکے گا البتہ خریدنے کی خواہش ہوگی تو خریدنے کے وسائل کے حصول اور یا انہیں بڑھانے کے جتن کرنے کی جانب بھی مائل ہوگا۔۔ تو کیا صرف اشیائے صرف کے اشتہارات اور ان کی وافر دستیابی کے سبب ہی غربت کم ہوگئی۔ لوگ خریدنے لگے بلکہ پڑھنے بھی لگے، تعلیم بھی عام ہوئی۔
ایسا نہیں ہے۔ جنہوں نے مال بنانا ہے، پھر جنہوں نے بیچنا ہے انہوں نے خریدار بھی پیدا کرنے ہیں۔ خریدار غربت کم کیے جانے یا ختم کیے جانے، روزگار کے مواقع پیدا کیے جانے یا دستیاب مواقع سے بہتر طریقہ سے استفادہ کیے جانے، معیار زندگی کو بہتر کیے جانے یعنی تمدن کو فروغ دیے جانے سے ہی پیدا ہوں گے۔
تو غربت کیسے کم یا ختم کی جائے، اس کے لیے پروگرام بنائے جاتے ہیں، فنڈز دیے جاتے ہیں لیکن ان سب کے لیے صرف ملازم نہیں لگن والے بہتر مینیجرز بھی درکار ہوتے ہیں۔ چونکہ غربت کے خاتمے یا دیہی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے حکومتیں بھی کام کرتی ہیں ایسے میں لگن والا کوئی فرد حکومتی عہدیداروں میں سے بھی ابھر سکتا ہے۔
تو جو 800 سو صفحات کی کتاب میں نے پڑھ کے تمام کی ہے وہ ایسے ہی ایک شخص کی لگن، محنت، سعی، خواہش اور مقصد کی داستان ہے جسے ایک آسٹریلوی مصنف نوئیل کوسنز نے طویل رپورتاژ کی صورت انگریزی زبان میں لکھا تھا اور اس کے ایس حمزہ گیلانی کے کیے ترجمہ، جس میں انہوں نے بس مرغابیوں کے شکار کو بطخوں کا شکار لکھنے کی غلطی کی، کو سنگی پبلشنگ ہاؤس کے مالک و مدارالمہام زاہد کاظمی نے بڑے اہتمام اور طمطراق سے شائع کیا ہے۔ اچھی بائنڈنگ اور بہتر کاغذ والی اس کتاب کی قیمت 4800 روپے فی نسخہ ہے۔
شعیب سلطان خان سرکار میں کمشنر کے عہدہ تک پہنچے، دیہی ترقیاتی پروگرام کے ڈائریکٹر بنے تو پرنس کریم آغا خان کی توجہ کا مرکز ہوئے جنہوں نے انہیں گلگت بلتستان میں آغا خان دیہی ترقی کے پروگرام کا جی ایم بنایا جہاں انہوں نے لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ کم سے کم اخراجات سے اپنے مسائل آپ حل کریں۔ لوگوں نے کمالات کیے تو پھر بس شعیب صاحب کبھی سارک میں تو کبھی اقوام متحدہ میں۔ کبھی انڈیا میں تو کبھی نیپال میں، کبھی سری لنکا میں تو کبھی مالدیپ میں۔۔ بیوی لندن میں، بچیاں یورپی ملکوں میں۔۔ سب کے سب لوگوں کی زندگیاں سنوارنے میں مصروف۔
ہم عالمی مالیاتی اداروں کو، حکومتوں کو اور غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی آوز کو برا بھلا کہتے ہیں، کچھ اتنا غلط بھی نہیں کہتے لیکن سوچیے کہ ایک جانب ایدھی جیسی شخصیت ہوتی ہے جو خدمات دیتی ہے، سرپرستی کرتی ہے چندے لوگوں سے لیے جاتے ہیں لیکن دوسری جانب پرنس کریم، عالمی بنک، اقوام متحدہ ہیں جو فنڈز فراہم کرتے ہیں، پروگرام بناتے ہیں، لوگوں کو ملازمتیں دیتے ہیں۔ درست کہ کام کرنے والوں کو اچھے مشاہرے ملتے ہیں، وہ دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں، آن بان شان بنتی ہے لیکن ان میں شعیب سلطان جیسے بھی ہوتے ہیں جو پوری دھن سے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں کہ لوگوں کو بھکاری بننے سے بچائیں تاکہ وہ سربلند رہتے ہوئے، اپنی زندگی آپ بہتر بنائیں۔
کتاب کو اگر سوانح بنایا جاتا تو دلچسپ ہوتی لیکن عزم و استعداد کا احاطہ نہ کر پاتی، رپورتاژ میں بار بار کہی باتوں کا دہرایا جانا تو آئے گا ہی، یوں آج کے قاری کی دلچسپی کم رہے گی۔